مسلم ممالک کو اتفاق واتحاد کی دعوت 

از۔۔۔ ظہیرالدین بابر 

وزیر اعظم پاکستان نے سعودی عرب میں ہونے والی کانفرس میں جس طرح غزہ میں ڈھائے جانے والی اسرائیل مظالم روکنے کے لیے ٹھوس اور قابل عمل پالیسی ترتیب دینے کا مطالبہ کیا ہے اس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگی ،شہبازشریف نے دراصل عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اقوام عالم کو بھی ان کی قانونی اور اخلاقی زمہ داریوں کی یاد دہانی کروائی ہے ، یقیناً مسلم اشرافیہ کو اس سوال کو جواب دینا ہوگا کہ ایک خدا، ایک قرآن اور ایک رسول پر ایمان رکھنے کے باوجود اہل فلسطین جس طرح اسرائیلی ظلم وبربریت کا شکار ہیں وہ پیچاس سے زائد مسلم ممالک کے لیے باعث تشویش ہونے کے ساتھ باعث شرم بھی ہونا چاہے ، وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں جہاں سعودی قیادت کو عرب اسلاملک غیر معمولی اجلاس بلانے پر خراج تحسین پیش کیا وہی ان دلخراش حالات واقعات کی منظر کشی بھی ہے جواس وقت ارض فلسطین پر دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں، مبصرین کا ماننا ہے کہ یقینا اسرائیلی ریاست نے اپنے قول وفعل سے ثابت کیا ہے کہ وہ دہشت گرد ریاست ہونے کی ہر تعریف پر پوری اترتی ہے، ظلم یہ ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور ہونے کا دعویدار امریکہ اہل فلسطین کی نسل کشی میں اسرائیلی وزیر اعظم کے آلہ کار کا کردار باخوبی نبھا رہا ہے ، قرآن حکیم میں خالق کائنات کا ارشاد ہے کہ وہ شر سے خیر اور خیر سے شر پیدا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے ، اس پس منظر میں حماس اور اسرائیل میں جاری جنگ کا حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ آج اسرائیل کا وہ بدنما اور خونخوار چہرہ مسلم ممالک کے سامنے آچکا جس پر پردہ ڈال کر وہ سعودی عرب سمیت اہم مسلم ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا، بلاشبہ انتہاپسند یہودی گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں ، ان کا سب سے بڑا ہدف مسلم ریاستوں کی تباہی یا پھر انھیں محکوم بنانا ہے ، وزیر اعظم پاکستان نے درست نشاندہی کی کہ اسرائیل فلسطین میں جنگ نہیں کررہا بلکہ وہ منظم انداز میں فلسطینوں کی نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے، یہی وہ سچ ہے جس پر عالمی عدالت انصاف نے کھل کر بات کی ہے ، شہبازشریف نے اپنے خطاب میں کہا اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے گھروں سمیت تباہ وبرباد کررہا ہے ، وزیر اعظم پاکستان نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یہودی ریاست کے سرپرست ایک طرف تو زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے اسرائیلی کاروائیاں روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب تل ابیب کو جدید تباہ کن ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری وساری ہے ، وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تفا ہم ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت جاری رکھیں گے جس کا دارلحکومت القدس شریف ہو اور اس کی سرحدیں 1967 سے قبل والی ہوں ، وزیر اعظم شبہازشریف نے پاکستانی قوم کی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کی نہ صرف کھل کر مذمت کی بلکہ عالمی برداری سے کردار ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا ، یہ اب کھلا راز ہے کہ اسرائیل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مشرق وسطی کے حالات خراب کرنے کے درپے ہے ، یہودی انتہاپسند وزیر اعظم پوری طرح کوشاں ہے کہ نہ صرف غزہ میں ظلم وستم کا بازار گرم رہے بلکہ لبنان کے ساتھ ایران تک اس جنگ کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے، مسلمان حکمرانوں کو اس تلخ حقیقت کو جان لینا چاہے کہ اسرائیل کے عزائم محض فلسطین ، لبنان اور ایران تک محدود نہیں ہیں، مثلا قوی امکان ہے کہ اسرائیل ایک بعد ایک مسلم ملک کو نشانہ بناتے ہوئے بتدریج آگے بڑھتے ہوئے مسلمان ریاستوں کو جبر و دھونس کے زریعے سرنگوں ہونے کے احکامات دے ‘ آج کی صورت حال میں اہم مسلم ممالک کو آگے بڑھ کر قیادت کرنے کی ضرورت ہے ، اسرائیل مسلمان ریاستوں پر تقسیم کرو اور حکومت کرو کا فارمولہ کامیابی سے آزما رہا ہے ، یہی وہ صورت حال ہے جس کی جانب وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اشارہ دیا ، مثلا شبہازشریف کا کہنا تھا کہ اب محض اسرائیل کی مذمت کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، سفارتی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر مسلم ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی سنجیدہ دھمکی ہی دیتے ہیں تو مشرق وسطی میں اسرائیل جارحیت کو لگام دی جاسکتی ہے ، دراصل اسرائیل مسلمان ملکوں کو حماس اور حزب اللہ کے نام سے ڈرانے کی پالیسی پر کاربند ہے ، اس حکمت عملی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بشیتر مسلمانوں ملکوں میں جمہوریت کی بجائے آمرانہ نظام جاری وساری ہے ، امریکہ اور اسرائیل مسلم دنیا کو یہ باور کروانے کے کے لیے کوشاں ہے کہ اگر مسلہ فلسطین کو لے کر مسلح مسلم تنظمیوں کی حوصلہ شکنی نہ کی گی تو یہ خود مسلمان اشرافیہ کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوگا ، بظاہر وزیر اعظم شبہازشریف نے مسلم دنیا کو اسی خوف اور بے یقینی سے نکالنے کے لیے تجویز دی کہ فسلطینوں کی حمایت میں اتفاق واتحاد سے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے بصورت دیگر اسرائیلی جارحیت کے دائرہ میں وہ مسلم ممالک بھی آسکتے ہیں جو بظاہر جو مشرق وسطی میں جاری جنگ سے لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں، بلاشبہ شبہازشریف نے مسلم دنیا کے سامنے مستقبل کی منظر کشی ہے جس پر یقینا غور فکر کرنے کی ضرورت ہے،

ای پیپر دی نیشن