قیدی کپتان کے فوجی ٹرائل کے اشارے نہیں ملے‘ برطانوی وزیر خارجہ۔
اپنوں کی کسی بات پر تو ہم یقین ہی نہیں کرتے خواہ کتنا بڑا محقق کیوں نہ ہو‘ ہاں اگر کوئی دوسرا گھسیارا وہی بات کہہ دے تو ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں پی ٹی آئی کے حامیوں نے برطانیہ میں اس طرح افواہوں کا طوفان برپا کیا جس طرح اس کا سوشل میڈیا پاکستان میں برپا کئے ہوئے ہے کہ عنقریب حکمران انکے بانی کے خلاف فوجی ٹرائل شروع کرائیں گے۔ یعنی سنگین الزامات کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلائیں گے۔ پے در پے اپیلوں اور درخواستوں سے تنگ آ کر، برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اپنے رکن پارلیمنٹ کو بتایا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کہا جا سکے کہ کپتان کا فوجی ٹرائل ہوگا۔ ان کیخلاف مقدمات عام عدالتوں میں چل رہے ہیں‘ پاکستانی حکومت کا ایسا کوئی ارادہ نہیں لگتا۔ امید ہے اس واضح گواہی کے بعد ان امریکی سینیٹروں کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہوگی جو پی ٹی آئی کی بھاری معاوضہ پر خریدی لابسٹ کمپنیوں کی مہم سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے موجودہ رخصت ہونے والے صدر جوبائیڈن سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت سے رابطہ کریں۔ مگر فی الحال یہ صرف صدر سے اپیل ہے‘ انکی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ وقت سے پہلے واویلا مچا کر بیرون ملک اپنے وطن کو بدنام کرنے والے کو کیا کہتے ہیں۔ اگر یہ حرکت کسی اور جماعت یا تنظیم نے کی ہوتی تو ہم اب تک انہیں غدار اور نجانے کیا کچھ کہہ رہے ہوتے۔ مگر حکمران محسوس ہوتا ہے پی ٹی آئی کے پراپیگنڈا کرنے والے فعال میڈیا سیل سے خوفزدہ ہیں اور کوئی موثر کارروائی یا جواب نہیں دے پاتے۔ امید تو یہی ہے کہ زبردست لابنگ کے باوجود امریکہ سے بھی ایسا ہی ٹھینگا جواب مل سکتا ہے۔ جس کے بعد شاید پی ٹی آئی والے پھر ”ہم کوئی غلام ہیں“ کا پرانا نعرہ اپنائیں گے۔ جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے‘ ملک کو بدنام کرنے والے زیادہ دیرخوش نہیں رہ سکتے۔
٭....٭....٭
بشریٰ بی بی احتجاج کی قیادت کریں گی‘ علی امین گنڈاپور۔ پارٹی ہائی جیک نہیں کی۔اسد قیصر۔
چند روز قبل جیل میں قید مرشد کا بیان آیا تھا کہ بشریٰ بی بی سیاست میں حصہ نہیں لیں گی‘ بس میرا پیغام پہنچائیں گی۔ مگر لگتا ہے اب مرشد کی بات پر کم، مریدوں کی خواہشات پر زیادہ عمل ہو رہا ہے۔ بشریٰ بی بی خود پیرنی ہیں‘ مرشد بھی انکی روحانیت پر صدق دل سے فدا ہیں‘ سو اب انہوں نے ازخود دعوت ارشاد کی مسند سنبھال لی ہے اور مرید خاص علی امین گنڈاپور اور اسد قیصر وغیرہ تو انکی بیعت بھی کر چکے اور وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے تو 24 نومبر کی احتجاجی کال کیلئے ارکان اسمبلی و عہدیداروں کے اجلاس میں اعلان بھی کردیا کہ احتجاج کو لیڈ بشریٰ بی بی کریں گی۔ اسدقیصر نے ہاتھ نرم رکھا اور کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بشریٰ بی بی پارٹی کو ہائی جیک کر رہی ہیں۔ بھلا اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی۔لگتا ہے اندرون خانہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔جس کا دبا دبا شور باہر بھی آ رہا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس پر قیدی مرشد اور علیمہ خان و عظمیٰ خان کیا کہیں گی۔ اس کا علم بھی جلد ہو جائیگا۔ مگر بشریٰ بی بی نے فوری طور پر سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے تحریک انصاف یوتھ ونگ اور سٹوڈنٹس یونیز کے عہدیداروں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں تاکہ 24 نومبر کو انہیں بھرپور حصہ لینے کے لئیے تیار کریں۔ساتھ ہی پارٹی رہنماوں کوجلالی تڑی بھی لگائی ہے کہ اگر کوئی مارچ سے قبل گرفتار ہوا یا جو ان کے حکم کے مطابق مقررہ تعداد میں کارکنوں کا جلوس لے کر نہ آیا تو ان کو جماعت سے نکال دیا جائے گا۔ اب ان حالات میں کارکن۔مرشد اور پیرنی کے درمیان پھنس گئے ہیں۔ پریشان ہیں کس کی سنیں۔یہ تو وہی غالب والی بات لگتی ہے۔
روکے ہے جوایمان تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
اب پارٹی والے کبھی بشریٰ بی بی کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی عظمیٰ و علیمہ و مرشد کی طرف۔ ان سے فیصلہ نہیں ہو رہا کس کے در پے جائیں‘ پیرنی کے یا مرشد کے۔
شکار پور میں ڈاکوﺅں کا پولیس پر حملہ‘ مقابلے میں تیغانی گروپ کا سرغنہ ہلاک۔
ابھی ڈاکو شاہد لوند کے مارے جانے کی خبر تازہ ہی ہے کہ گزشتہ روز شکارپور میں ڈاکوﺅں نے پولیس چوکی پر حملہ کرکے سندھ پولیس کو یک بار پھر سے کڑا چیلنج دیا ہے۔ شکارپور کوئی علاقہ غیرنہیں‘ بڑا نہ سہی‘ درمیانہ شہر ہے‘ اب یہاں اگر ڈاکو اتنی آسانی سے پولیس کا شکار کر سکتے ہیں‘ تو عام شہری‘ تاجر اور ہندو برادری کے متمول لوگ تو ان کیلئے تر نوالہ ثابت ہوتے ہوں گے۔ لاقانونیت اور حکومت کے درمیان ایک عجیب مقابلہ جاری ہے۔ نہ ڈاکو ہار مانتے ہیں نہ حکومت انہیں ختم کر پاتی ہے۔ یہاں سے حکومتی کمزوری سامنے آتی ہے۔ کیونکہ حکومت میں شامل اور بااثر طبقے اندرون خانہ خود ان ڈاکوﺅں کی سرپرستی کرتے ہیں اور انہی کی مدد سے یہ بااثر لوگ اپنے اپنے علاقے میں اپنا رعب ڈالتے ہیں اور دہشت پھیلاتے ہیں۔ اب یہ فریدو تیغانی گینگ ہے جو شاہد لوند کی کمی پوری کر رہا ہے۔ اس کا سرغنہ فریدو ‘ پولیس چوکی پر حملے کے بعد پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ یوں لگتا ہے کچے میں تو ڈاکوﺅں کی پوری نسل تیار ہو گئی ہے۔ وہاں کی آبادی ڈاکو تیار کرنے والی فیکٹریاں ہیں۔ اوپر سے یہ ڈاکو خود کو مظلوم اور انسان دوست غریب پرور بتا کر سوشل میڈیا میں خطرناک اسلحہ لہرا کر خود کو رابن ہڈ‘ سلطانہ ڈاکو ثابت کرتے پھرتے ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ انکے مرنے پر چلو ڈاکو اور چور تو روتے ہوں گے یا انکے گھر والے۔ یہ سوشل میڈیا کی پیداوار‘ دانشور اور لوگ بھی ماتم کرتے نظر آتے ہیں اور انکے فضائل بیان کرتے پھرتے ہیں۔ کیا معلوم کل کو ان مرنے والے ڈاکوﺅں کے مزار بن جائیں۔ اس سے ہماری ذہنی پستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تمام تر جوابی کارروائیوں کے باوجود بہرحال یہ ڈاکو اپنی طاقت اور موجودگی کاثبوت دیتے رہتے ہیں اگرچہ ان کے خلاف آپریشن بھی جاری ہے
مسائل کے حل کیلئے سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا‘ حافظ نعیم۔
پہلے تو حافظ نعیم یہ بتائیں کہ وہ یہ بات کس سے کہہ رہے ہیں۔ خود ان کی جماعت چلیں انکے مشورے پر کان دھرے گی مگر اپوزیشن والی پی ٹی آئی کو کون راضی کرے گا۔ وہ تو حکومت کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔ ہاں جہاں کوئی فائدہ ہو‘ پالیسی بدل جاتی ہے۔ اسکی خواہش ہے کہ وہ حکومت کی بجائے صرف بااختیار حلقوں سے بات کرے۔ جو آجکل اسے لفٹ نہیں کرا رہے۔ کیا یہ ہوتی ہے جمہوری سوچ۔ خود جماعت اسلامی والے بھی جب ان کو جمہوریت کی یاد آتی ہے‘ الیکشن میں ناکامی کا درد ستانے لگتا ہے تو وہ بھی سارا نزلہ حکومت پر گرا کر اسے غیرآئینی اور غیرجمہوری قرار دیکر پی ٹی آئی کی ہی بولی بولتے ہیں۔ یہاں دونوں جماعتیں بااختیار حلقہ سے بات چیت کے نکتے پر ہم زبان ہی نہیں، ہم خیال بھی نظر آتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔
”میں نئی بولدی میرے وچ میرا یار بولدا“ کے مصداق انکے دل کی آواز یہی ہوتی ہے کہ کوئی بااختیار فریق ان سے بات کرے۔ عسکری ذرائع نے تو پی ٹی آئی والوں کی منفی مہم اور رویوں کی وجہ یکسر انکار کر دیا ہے۔ رہی جماعت اسلامی تو وہ بھی ضیاءالحق دور کے خصوصی مراعات یافتہ خواب سے باہر نکلے‘ حقائق کی دنیا میں واپس آئے‘ اب انہیں خصوصی سنہری چھتری میسر نہیں ہے۔ اب انہیں بھی زمانے کی گرم و سرد ہواﺅں کو برداشت کرنا ہوگا۔ اب حافظ نعیم آگے بڑھیں اپنی خواہش پر عمل کریں سب کو پہلے اکٹھے بیٹھنے کیلئے آمادہ تو کریں۔ پتہ لگ جائیگا کون مسائل کا حل چاہتا ہے اور کون فساد کی راہ پر چلنا چاہتا ہے۔ شاید حافظ جی کی کوشش رنگ لے ہی آئے‘۔
منگل‘ 16 جمادی الاول 1446ھ ‘ 19 نومبر2024
Nov 19, 2024