پوپ فرانسس نے غزہ میں نسل کشی کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہاں پر ممکنہ نسل کشی کی عالمی سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں نسل کشی میں آتی ہیں جس کے بارے میں تحقیقات ضروری ہیں۔
اقوام عالم میں یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں رہی کہ گزشتہ سال آٹھ اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں جاری انسانی قتل عام وہاں نسل انسانی کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ اسرائیل کا ہدف نہتے مسلمان فلسطینی باشندے ہیں اور وہ معصوم بچوں اور خواتین سمیت ہر فلسطینی باشندے کو صفحہ ہستی سے ملیامیٹ کرنے کے درپے ہے تو اس سے بڑی نسل کشی کی واردات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اب تو اسرائیل نے اپنی بربریت کا سلسلہ لبنان‘ عراق‘ ایران تک دراز کردیا گیا ہے جس کا ہدف صرف مسلمان ہیں تو یہ مسلمانوں کو ختم کرنے کا عالمی صہیونی ایجنڈا ہی ہے جسے امریکہ‘ برطانیہ اور دوسری الحادق قوتوں کی سرپرستی میں پایہ تکمیل کو پہنچانے کی عالمی سازش کارفرما ہے۔ حماس نے تو گزشتہ سال 8 اکتوبر کو اسرائیلی جاری مظالم کے ردعمل میں اس پر راکٹ اور میزائل حملہ کیا تھا جس کے بعد سے اب تک فلسطینی عوام کیخلاف اسرائیلی بربریت تھم ہی نہیں پائی اور اس نے غزہ کی تقریباً ایک تہائی آبادی کو ملیامیٹ کر دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی اسرائیلی وحشیانہ بمباری نے غزہ کے ہسپتالوں‘ مارکیٹوں‘ مدارس اور امدادی کیمپوں سمیت سب کچھ نیست و نابود کر دیا ہے۔ وہاں شہری آبادیوں سمیت ہر چیز کھنڈرات میں بدل گئی ہے اور غزہ کی سرزمین فلسطینیوں کیلئے عملاً قبرستان بن گئی ہے جس میں 40 ہزار کے قریب فلسطینی خاک و خون میں لپٹ کر زیرزمین جا چکے ہیں اور ہزاروں باشندے بالخصوص بچے زخمی حالت میں تڑپ رہے ہیں۔ عالمی سطح کے مظاہروں میں ”سٹاپ اسرائیل“ کے نعرے لگ رہے ہیں‘ اسرائیلی وزیراعظم کا یواین جنرل اسمبلی تک میں گھیراﺅ کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ عالمی عدالت انصاف بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دیکر یاہو کی گرفتاری کے احکام صادر کر چکی ہے مگر اسرائیل اور اسکے حواری ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور اسکی بڑھتی جنونیت تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بجا رہی ہے۔ پوپ فرانسس انسانی حرمت و توقیر کے حوالے سے مسیحی برادری میں ہی نہیں‘ اقوام عالم میں بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں اس لئے انکے تقاضے کی بہرحال پاسداری ہونی چاہیے۔