”ہر بڑی خوش قسمتی کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہوتا ہے“
یہ جملہ فرانسیسی ادیب بالزاک (Balzaq) سے منسوب ہے۔ ایک پاکستانی ادیب نے بالزاک کے بارے میں لکھا تھا کہ ”وہ انسانی معاملات کی نیرنگیاں دیکھ دیکھ کر ابلیسانہ ہنسی ہنستا ہے لیکن اس کے پیچھے یہ حسرت بھی پوشیدہ ہوتی ہے کہ انسان آخر بہتر کیوں نہ ہوسکا۔ وہ کہنا چاہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہت اہم سمجھتا ہے لیکن اگر وہ اپنے آپ کو غور سے دیکھے تو پتہ چلے گا کہ وہ کتنا مضحکہ خیز ہے“
ہزاروں برس سے انسان قانون قدرت کی نفی کرکے اپنے جیسے انسانوں کو غلام بناتا آیا ہے۔ بادشاہوں نے بہت سے علاقے فتح کئے ان علاقوں کو سلطنت کا حصہ بنا لیا اور دکھ سکھ سانجھے ہو گئے۔ کئی حملہ آور بھی آئے لوٹ مار کی۔ کسی کے وسائل پر مستقل قبضہ نہیں کیا لیکن نو آبادیاتی طاقتوں نے کمزور قوموں کے علاقوں، وسائل اور ”جسموں“ پر بھی نہ صرف بلاشرکت غیرے قبضہ کیا اور انہیں مال مفت سمجھ کر دل بے رحم کی طرح لوٹا، کھسوٹا اور اپنی خواہشوں کے محلات تعمیر کئے۔ خود انگریزوں نے ہندوستان سے 45 ٹریلین امریکی ڈالرز سے زائد کا اسباب لوٹ لیا۔ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی ظالمانہ پالیسی نے یہاں کے مکینوں کا ”جوڑ جوڑ الگ“ کر دیا۔ اتنی نفرت بھر دی کہ اس کی آگ آج بھی پوری ”آب و تاب“ سے محبت کی ”روشنیوں“ کو مات کر رہی ہے مزید نفرت پھیلانے کیلئے کشمیر جیسے تنازعات بغیر حل کے چھوڑ دیئے۔ چشم پوشی کرکے ہجرت کے وقت لاکھوں ناتوانوں کا خون بہنے دیا، گئے تو ”نام کے آزاد لوگ“ ”کالے انگریزوں“ کو سونپ گئے۔ یہ کالے انگریز آج ”ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا“ کا نمونہ بنے ہوئے ہیں اور وطن عزیز کو ”مقبوضہ مقام“ سمجھتے ہیں۔
یہ باتیں ذہن پر اس وقت دستک دینے لگتی ہیں جب ہمارے لوگ اپنے دکھوں کا مداوا دوسرے لوگوں میں تلاش کرنے لگتے ہیں۔ یہ صدائیں بھی ابھی تک مدہم نہیں ہو سکیں کہ ”انگریز کا دور اچھا تھا“۔ اسی طرح ہم سوچنے لگے ہیں فلاں غیر ملک یا شخص ہماری مدد کو آ جائےگا۔
جناب عرض ہے کہ دنیا ”فری لنچ“ نہیں۔ یہاں ہر چیز کا حساب ہوتا ہے اور ہمیں بھی ”میر“ کی طرح اتنا سادہ نہیں ہونا چاہئے کہ جن کے سبب بیمار ہوئے انہی عطاروں کے لونڈوں سے دوا لینے نکل پڑیں۔ یہ خیال محال اور جنون کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی ہماری مدد کو آئے اور ہمیں اپنے مفادات کی ”نوآبادی“ نہ بنائے۔
سامراجی طاقتوں کے ”کارنامے“ سننا ہیں تو بڑے بڑے عالمی مفکروں کی زبانی سن لیں تھامس پکٹے ( piketty Thomas) جانے مانے فرانسیسی ماہر معیشت ہیں ان کی کتاب ”مساوات کی مختصر تاریخ “ (of equality history Short) کے ”نوآبادی“ سے متعلق باب میں لکھا ہے کہ ”مغرب کی موجودہ ترقی دوسری قوموں کو غلام بنائے بغیر ممکن نہیں تھی یہ نو آبادیوں کی دولت ہی ہے جس نے مغرب کو مالدار بنا دیا“۔ یہ تذکرہ کرتے ہوئے پال کینیڈی( Kennedy Paul ) کی کتاب ”عظیم طاقتوں کا عروج و زوال“ (Rise and fall of the great powers)بھی ذہن کی سکرین پر نمودار ہو گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ انگریز جب ہندوستان آئے تو یہ خطہ دنیا کی برآمدات میں 24 سے 25 فیصد حصہ ڈالتا تھا لیکن گئے تو یہ شرح 3سے 4 فیصد تک رہ گئی یہ بات بھارتی کانگرسی رہنما ششی تھرور نے اپنی کتاب ”تاریک دور“ (An era of darkness)میں بھی لکھی ہے۔
کڑوا سچ یہی ہے کہ جن ” باغوں“ کو رکھوالی کیلئے اپنی دھرتی سے مالی نہ مل سکیں، لٹ جانا ان کا مقدر بن جایا کرتا ہے۔ ”باغوں“ کی حفاظت کیلئے ہر راہرو کے ساتھ چلنے کی بجائے راہبر کو پہچاننا ضروری ہوتا ہے۔
ہندوستان کا ” باغ“ اجڑنے کی ایک ناقابل تردید وجہ یہ تھی کہ جب انگریز ہندوستان آئے تو دنیا ایک ”زرعی معاشرہ“ تھا۔ انگریزوں کی ہندوستان موجودگی کے دوران صنعتی انقلاب آیا تو انہوں نے ”اجڑے باغ“ پر توجہ دینے کی بجائے اپنے ہرے بھرے ”کھیتوں“ کی طرف متوجہ ہونا زیادہ مناسب سمجھا۔ چنانچہ صنعتیں مانچسٹر جیسے شہروں میں لگائی جاتیں اور خام مال ہندوستان جیسی نو آبادی سے مہیا کیا جاتا۔ برطانیہ صنعتی ملک میں بدل گیا اور خام مال دینے والا زرعی کا زرعی ہی رہ گیا۔ لگ بھگ یہی حال مغرب کی دوسری سامراجی طاقتوں نے اپنی نو آبادیوں کا کیا۔
اس دور میں مغرب میں علمی و ادبی ترقی کی کہانی بھی کیا خوب ہے۔ اسے سمجھنے کیلئے ساحر لدھیانوی کی نظم ”مادام“ کو پڑھنا ضروری ہے۔ واقعی بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی اور ہماری بھوک تو وہاں تک پہنچا دی گئی جہاں تہذیب پل ہی نہیں سکتی۔ دوسری طرف نو آبادیوں کی دولت سے مغرب نے بھوک مٹا کر ادب و آداب کے خوب ”ثواب“ سمیٹے نہ صرف اپنے سمیٹے بلکہ نوآبادیوں کی دولت کی طرح یہاں کے ادیبوں سے سرقہ کیا گیا۔ جو مال غنیمت میسر آیا اسے بھی نہ چھوڑا اور بہت ساری نادر تحریریں اپنے ادیبوں کے نام نامی سے منسوب کر دیں یا کم از کم بنیادی خیال چرا لئے۔ فلسطینی نڑاد امریکی مفکر ایڈورڈ سعید (Edward said ) نے اپنی کتاب کلچر اینڈ امپیریل ازم (Culture and imperialism) میں بہت سی چکا چوند کر دینے والی معلومات فراہم کی ہیں لیکن دولتمندوں اور صاحب حیثیت لوگوں کے نقار خانوں میں پسماندہ ملکوں کے ”طوطیوں“ کی آواز بھلا کون سنتا ہے ، سن لے تو کون سمجھتا ہے؟ اور سمجھ لے تو کون بولتا ہے کہ مفادات کی ”شراب“ میں غرق ہوکر ہی تو انسان نے خود کو مضحکہ خیز بنا لیا ہے۔ انسانی حقوق، حق سچ کے نعرے، انصاف اور میرٹ کی باتیں درحقیقت مفادات کے ترازو میں ہی تولی جاتی ہیں اور پھر ہوس کی اس جنگ کے ویرانے کا کوئی اچھا سا نام تجویز کر لیا جاتا ہے۔ خونِ خاک نشیناں خاک میں مل جاتا ہے اور دنیا ہاتھ جھاڑ کر کسی اگلے ”کاروبار“ کا سوچنے لگتی ہے۔
جس طرح خاک سے اٹھ کر فوری طور پر آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ امید لگانا کہ محض اچھی باتوں سے یکدم قومیں خواب غفلت سے اٹھ کر اپنے لئے ایک الگ جہاں اور پرواز کیلئے الگ آسمان پیدا کر لیں گی تو ایسا کرنا حقیقت سے کچھ بڑھ کر ہو جائیگا۔ یقیناً اس سب کیلئے وقت، سوچ، حکمت عملی اور جستجو چاہئے لیکن باتوں سے کم از کم یہ تو جانا جا سکتا ہے کہ ”شیشوں کا مسیحا“ کوئی نہیں ہوا کرتا پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ اپنے غموں کے مداوے کیلئے کسی غیر سے امیدیں لگا لی جائیں ”گرچہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا لیکن اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے کیلئے اپنی زمین اور اپنا جہاں خود پیدا کرنا پڑتا ہے سیدھی سی بات ہے، کسی کو کیا پڑی ہے کہ اپنے مفادات قربان کرکے اپنی مراعات تیاگ کر کسی دوسرے کے حقوق کیلئے کمر بستہ ہو جائے اور اپنا سب کچھ بھول کر مسرتوں کا جہاں پیدا کرتا پھرے۔ بغیر کسی صلے کی امید کئے جان جوکھوں میں ڈالنے والے دلا بھٹی، سلطانہ ڈاکو اور روبن ہڈ کبھی کے پیدا ہونا بند ہو چکے ہیں۔ حقیقت تو ایک طرف، اب تو فلموں میں بھی ایسے کردار ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔
ہمارے آلام کی تلافی کیلئے باہر سے گورے کالے یا کسی بھی طرح کے ”انگریز“ کبھی نہیں آئیں گے اور اگر آئے تو فی سبیل اللہ نہیں آئیں گے۔ یہ کام ہوش مندی، حکمت عملی اور مثبت جدوجہد سے ہمیں ہی کرنا ہوگا۔ ملک ہمارا ہے تو ہمارے غموں کا مداوا کرنے کیلئے ہم سے زیادہ مخلص اور کون ہو سکتا ہے؟
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے