کسی نے نوکری کرنے کے اصول بتائے تھے: پہلا اصول باس ہمیشہ ٹھیک کہتا ہے،اور جب باس ٹھیک نہ کہے تو یہاں بھی پہلا اصول ہی اپلائی ہوگا کہ باس ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے،وہ باس ہیں اور باس پوچھتا نہیں حکم دیتا ہے۔ بات بالکل درست ہے باس نے تو حکم ہی دینا ہوتا ہے۔ سامنے اس کے تنخواہ دار ملازم جو ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری ہی باس کا حکم بجا لانا ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بات کسی کمپنی یا ادارے کی نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کی ہورہی ہے اور یہاں باس کسی کمپنی یا ادارے کا سربراہ یا کوئی بڑا افسر نہیں بلکہ اس سیاسی جماعت کا رہنما ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان ایک سنجیدہ اور سلجھے ہوئے شخص ہیں۔ ان کے مخالفین کی بھی رائے ان کی بارے میں کچھ ایسی ہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس جماعت کی سربراہی کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے وہاں شخصیت کی ایسی سنجیدگی کو مثبت خصوصیات میں شمار نہیں کیا جاتا۔
پوچھا گیا تھا 24 نومبر کے احتجاج پر مشاورت کا تو بیرسٹر گوہر کے منہ سے یہ سن کر کہ عمران خان باس ہیں وہ پوچھتے نہیں حکم دیتے ہیں زیادہ حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ بات بالکل درست ہے عمران خان اپنی پارٹی میں باس ہیں انھوں نے جو کہہ دیا کہہ دیا، وہی ہوگا، باس نے کہا مخالفین کو برا بھلا کہو، فلاں فلاں الفاظ بولو سب نے وہی بولنا شروع کردیا۔ باس نے کہا جو میرے خلاف بولے اسے غدار کہو سب نے غدار کہنا شروع کردیا۔ باس نے خود کو حق اور مخالفین کو باطل قرار دیدیا تو سب نے بھی یہی کہنا شروع ہوگئے۔ باس نے کہا میرے خلاف تحریک عدم اعتماد کو امریکہ کی سازش کہو سب نے کہنا شروع کردیا۔ باس نے کہا قومی اسمبلی توڑ دو تو ملک کے صدر نے چند منٹ نہ لگائے حکم کی تعمیل کرنے میں۔ باس نے کہا، اب صوبائی اسمبلیاں توڑ دو، وزرائے اعلیٰ کو نہ چاہتے ہوئے بھی حکم ماننا پڑا۔ باس نے کہا، مجھے گرفتار کیا گیا تو سب باہر نکل آو احتجاج کرو، حکم مانا گیا 9 مئی کردیا۔
باس کا حکم مانتے مانتے حالات کو یہاں تک پہنچا دیا لیکن کسی میں ہمت نہ ہوئی باس کو نہ بولنے کی یا کم از کم اس کے حکم کے خلاف رائے ہی دے دینے کی تو عمران خان باس تو ہوئے۔ بیرسٹر گوہر نے تو کھل کر کہہ دیا، تسلیم کرلیا۔ ویسے عمران خان کا باس کہنے پر زیادہ اعتراض ہونا نہیں چاہیے لیکن اعتراض تب تو بنتا ہے جب آپ مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بادشاہ سلامت کہتے رہے ہوں ان کی تعریف اور دفاع کرنے والوں کو درباری اور کنزیں،تو پھر اعتراض بنتا ہے۔ جب آپ مخالف سیاسی قائدین کو طعنے دیتے رہے ہوں من مانیاں کرنے ،کسی کی بات نہ سننے کے تو اعتراض تو بنتا ہے۔ لیکن کہا یہ بھی جاسکتا ہے کہ عمران خان لیڈر ہیں تبھی تو باس ہیں۔
تو بھائی صاحب لیڈر کبھی باس نہیں بنتا۔ وہ فیصلے مسلط نہیں کرتا دلائل سے بات منواتا ہے،باس پیچھے بیٹھ کر اپنے ملازمین کو کام کرنے کے احکامات دیتا ہے لیڈر اپنے لوگوں کے ساتھ خود اس کام میں شامل ہوتا ہے بلکہ سب سے آگے ہوتا ہے،سامنے کھڑا ہوتا ہے،لیڈر کبھی تقسیم نہیں کرتا بلکہ سب کو جوڑتا ہے جبکہ باس اکثر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے ملازمین کو تقسیم رکھ کر اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ لیڈر ہر کام میں اپنے لوگوں سے مشاورت کرتا ہے، انھیں اعتماد میں لیتا اور اعتماد دیتا ہے باس اپنے منصوبوں کو ادارے کی رازداری سمجھتا ہے انھیں خفیہ رکھتا ہے بوقت ضرورت اور ازراہ ضرورت ہی انھیں لوگوں کو بتاتا ہے ،لیڈر کی لوگ دل سے عزت کرتے ہیں باس کی ڈر سے۔
باس کو اس کے ملازمین مجبوری سمجھتے ہیں اور لیڈر کو اس کے کارکن ضروری ،باس سے خوشنودی کے لیے ملازمین سب کچھ کرتے ہیں اس کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اس کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے بھی ہنستے ہیں جبکہ لیڈر کو ایسی جعلی خوشنودی کی ضرورت نہیں ہوتی،وہ اسے پسند کرتا ہے نہ ایسا کرنے والوں کو، باس خود کو باس سمجھتا ہے لیڈر خود کو لیڈر بھی نہیں سمجھتا۔باس اپنا فائدہ اور نقصان دیکھتا ہے لیڈر اپنے لوگوں کا بھلا اور برا۔ تو فرق تو ہے زمین آسمان کا باس اور لیڈر میں اب چاہے آپ لیڈر کو باس بنائیں یا باس کو لیڈر سمجھیں اور باس چاہے خود کو باس ثابت کرے یا لیڈر۔ سب اپنی اپنی سمجھ بوجھ اور مرضی کی بات ہے لیکن سیاست میں لیڈر کو باس بنا لینا سیاست کے لیے ٹھیک ہوتا ہے نہ کارکن کے لیے اور نہ ہی لیڈر کے لیے۔ اس سے جو ہوتا ہے اس کی ایک بڑی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔
باس اور لیڈر
Nov 19, 2024