وی پی این بند ہو یا چلتا رہے، خبروں میں ضرور رہتا ہے، پاکستان میں تو سوشل میڈیا کی سرگرمیاں اس حد تک ہیں کہ کوئی کچھ کرے یا نہ کرے وہ سوشل میڈیا ضرور استعمال کرتا ہے، وی پی این لگا کر کچھ لوگ ٹویٹ کرتے ہیں تو کچھ لوگ نجانے کیا کچھ کھولتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو حرکت میں آنا پڑا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل وی پی این کے ساتھ ساتھ خبروں کا حصہ بنے کیونکہ انہوں نے اسے حرام قرار دیا، مولانا طارق جمیل نے اس عمل کے ردعمل میں کہا کہ اگر وی پی این حرام ہے تو پھر موبائل فون کے استعمال پر بھی یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ بس اس کے بعد ایسا بحث مباحثہ ہوا کہ علامہ راغب نعیمی کو وضاحت جاری کرنا پڑی۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ راغب نعیمی کہتے ہیں کہ وی پی این کا استعمال اکثر غیر اخلاقی امور میں ہو رہا ہے، رپورٹس کے مطابق روزانہ پندرہ ملین بار غیر مہذب سائٹس پر ہٹس ہو رہے ہیں۔ اگر وی پی این کو رجسٹر کر دیتے ہیں اور مثبت تنقید کرتے ہیں تو اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جس طرح لاؤڈ سپیکر اگر متعلقہ ایکٹ کے خلاف استعمال ہو گا تو اس پر پرچہ بھی ہو گا اور سزا بھی ہو گی، رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ وی پی این سے غیر مہذب مواد اور غلط پروپیگنڈا کیا جائے تو غیر شرعی ہو گا۔
ویسے میں نے سنا ہے مولانا یہ بھی فرما رہے تھے کہ وی پی این کے ذریعے گستاخانہ مواد بھی نشر ہوتا ہے۔ اب یہ اور بھی زیادہ خطرناک بات ہے کیونکہ جہاں مذہبی جذبات بھڑکانے کا معاملہ ہو یا دین سے جڑی بات ہو یا پھر عقائد کا معاملہ ہو وہاں سختی کرنا پڑتی ہے لیکن کیا ہم اسے حلال حرام سے نکال کر زیادہ بہتر اور مناسب انداز میں پیش نہیں کر سکتے۔ ایسے معاملات میں ہمیں ضرورت تعلیم و تربیت کی بھی ہے۔ علامہ راغب یہ بھی فرماتے ہیں کہ عین ممکن ہے مولانا طارق جمیل حقائق سے ناواقف ہوں جس بنیاد پر انہوں نے بیان جاری فرمایا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ مولانا طارق جمیل کے کسی نئے بیان کا انتظار کرنے کے بجائے اسلامی نظریاتی کونسل خود حقائق ان تک پہنچا دے اس میں کوئی قباحت ہرگز نہیں ہے۔ بہرحال غیر اخلاقی مواد، غیر شائستہ گفتگو، گستاخانہ مواد سمیت ہر اہم معاملے پر ہمیں نوجوان نسل تک بہتر، آسان اور سادہ الفاظ میں پیغام پہنچانا چاہیے۔ اگر اجماع کا معاملہ بھی ہے تو اسے تمام مکاتب فکر کے علماء کو اعتماد میں لے کر منبر و محراب کے ذریعے ایسے معاملات میں پیغام بہت موثر انداز میں عام آدمی تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ کر بانی پی ٹی آئی، تحریک انصاف، پارٹی کے چوبیس نومبر کے احتجاجی مارچ اور سٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری کشیدگی پر بات کیلئے مکمل طور پر تیار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے مطابق پی ٹی آئی اور سٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری کشید گی تحریک انصاف اور ملک کے مفاد میں نہیں، ایسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کا احترام ہے۔ تحریک انصاف کو جلسے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔
پی ٹی آئی کے مسائل کی بڑی وجہ غیر سنجیدہ قیادت ہے اور یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ پرانا ہے اور ان دنوں یہ مسئلہ اور گھمبیر ہوا ہے کیونکہ بانی پی ٹی آئی قید میں ہیں ان کی عدم موجودگی میں کئی سپیکر ہیں اور سب اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور بھی ایسے افراد میں شامل ہیں جنہیں سنجیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ اب ایک طرف خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی یہ سوچ میڈیا میں ہے، لوگوں تک یہ پیغام پہنچ رہا ہے جب کہ عین اسی وقت شیخ وقاص اکرم کا بیان بھی سب کے سامنے ہے وہ اس سے مختلف انداز میں بات کر رہے ہیں۔ شیخ وقاص اکرم نے احتجاج سے پہلے حکومت یا سٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا امکان مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رانا ثنااللہ پہلے بھی کہتے رہے کہ پی ٹی آئی والے اٹک پل پار نہیں کر پائیں گے لیکن ہم نے کیا، اب جب تک احتجاج کے اہداف حاصل نہیں ہوں گے وہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ خواجہ آصف ہماری جماعت کے لوگوں کو کمپرومائزڈ کہنے والے کون ہوتے ہیں۔
پی ٹی آئی قیادت کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ہر وقت کا احتجاج ، ہر وقت غیر ضروری اور ہدف بنا کر بیان بازی سے مقاصد حاصل نہیں ہوتے۔ معاملات حل کرنے کے لیے بات چیت سے بہتر راستہ کوئی نہیں ہے۔ احتجاج کے دوران یا بعد میں بھی مسائل بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوں گے لیکن ایسا کون کرے گا علی امین تیار ہیں لیکن شیخ وقاص اکرم ایسے امکانات کو مسترد کر رہے ہیں کیا ان حالات میں کوئی بات چیت ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری بورڈ، مواصلات اور نجکاری عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ پاکستان پی آئی کی نجکاری کیلئے بڈنگ کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ اگلی بار نجکاری کیلئے مشیر تبدیل کیا جائے گا۔
عبدالعلیم خان پی آئی اے نجکاری مشن پر ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے اور پاکستان میں ایسے کاموں کے راستے میں ہر طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ہم چونکہ غیر روایتی کام کے عادی نہیں ہیں اس لیے پی آئی اے نجکاری عمل میں بھی ناصرف رکاوٹیں ہیں بلکہ ٹانگیں کھینچنے کا عمل بھی جاری ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ دنیا میں کب کب اداروں کی نجکاری کا عمل شروع ہوا اور کتنی مرتبہ ناکامی کے بعد کامیابی نصیب ہوئی لیکن یہاں سب اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب کوئی ناکام ہو اور اس کو نشانہ بنایا جائے۔ چند دن گزرے ہیں پی آئی اے نجکاری عمل میں ناکامی کے بعد کئی سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا، سینئر سیاست دانوں نے بھی تنقید کی اس وقت عبدالعلیم خان نے جواب دیا تھا۔
عبدالعلیم خان کا شمار وطن عزیز کے ایسے شہریوں میں ہوتا ہے جو اپنے وسائل اس ملک کے سہولیات سے محروم شہریوں پر خرچ کرنے کے راستے ڈھونڈتے ہیں، مختلف وقتوں میں انہوں نے اپنی فاونڈیشن کے ذریعے مصیبت میں گھرے پاکستانیوں کی خدمت کا فریضہ انجام دیا اور یہ عوامی خدمت، فلاح و بہبود کے یہ کام خاموشی سے اور کسی بھی بیرونی مدد یعنی عطیات کے بغیر ہی ہوتا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کی نجکاری کے معاملے میں سیاسی مخالفین انہیں نشانہ بناتے رہے ہیں۔ حالانکہ اس سارے عمل میں وفاقی وزیر نے ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی بھی صورت ملک و قوم کا نقصان نہ ہو۔ بدقسمتی سے آج تک کوئی یہ بات نہیں کرتا کہ پی آئی اے ان حالات تک کیوں پہنچی، ہمارا فخر، اثاثہ، ملک کی پہچان کو نشانہ کس نے بنایا، ایک ایسا ادارہ جو منافع کما سکتا تھا، پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتا تھا اسے بوجھ بنا دیا گیا، خسارے اور نقصان کا پہاڑ بنا دیا، یہ وہ پی آئی اے تو نہیں جو ہمارے بڑوں نے دیکھی، یہ وہ نظام تو نہیں جسے ہمارے بڑے چلانا چاہتے تھے۔ یہ تو کوئی اور ہی ایجنڈا ہے۔ جن لوگوں نے اسے تباہ کیا ہے آج وہی شور مچا رہے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ شور مچانے والوں نے خود پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو ڈبونے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ عبدالعلیم خان کو یہ مشکل اور اہم ذمہ داری دی گئی ہے وہ اسے نبھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاسی مخالفین انہیں کی کامیابیوں سے خائف ہیں، وہ کامیابیاں سیاسی میدان میں ہوں یا کاروباری میدان میں، اس کے باوجود کہ عبدالعلیم خان کے پاس حقائق، اعداد و شمار اور تاریخ ان کے سامنے ہے انہوں نے الزام تراشی کے بجائے مثبت اور تعمیری کام پر توجہ دی ہے۔
وفاقی وزیر سرمایہ کاری بورڈ ، مواصلات اور نجکاری عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ میرے پاس تمام وزارتیں امانت ہیں اور میں اللہ اور قوم کو ان کے بارے جوابدہ ہوں، وزارتوں کی ایک ، ایک پائی کا ذمہ دار ہوں، کبھی سرکاری وسائل استعمال نہیں کیے، غیر ملکی دورے بھی ذاتی خرچ پر کیے، میرے پاس کوئی سرکاری ملازم اور گاڑی بھی نہیں، تنقید کرنے والے دوسروں کو سمجھانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ قومی خزانے سے میں نے کبھی اپنے اوپر ایک روپیہ بھی نہیں لگایا ہے اور نہ کبھی لگاؤں گا۔ میرے پاس کوئی سرکاری گاڑی نہیں ہے ، میرے پاس کوئی سرکاری ملازم، کوئی سرکاری ڈرائیور نہیں ہے، میں نے آج تک جتنے بھی بیرون ملک دورے کئے ہیں ان کے لئے ایک روپیہ بھی آج تک حکومت پاکستان سے نہیں لیا۔ قومی خزانے سے میں نے کبھی اپنے اوپر ایک روپیہ بھی نہیں لگایا ہے اور نہ کبھی لگاؤں گا۔
کوئی ثابت کردے کہ میں کبھی کسی ملک میں سرکاری خرچے پر گیا ہوں یا کوئی سفارت خانہ کہہ دے کہ میں نے کسی ملک میں رہتے ہوئے ایک روپیہ بھی حکومت پاکستان کا خرچ کیا ہو پا پاکستانی قوم کا لگوایا ہو، ایک دفعہ میں نے کوئی ٹی اے ، ڈی اے لیا ہو، میں جہاں گیا ہوں اپنے خرچے پر گیا ہوں، اپنے خرچے پر جاؤں گا، جہاں رہتا ہوں اپنے خرچے پر رہتا ہوں، میں نے وزارت نجکاری کا جو دفتر بنایا اس میں بھی کوئی ثابت کر دے کہ میں نے اس کے لیے ایک روپیہ بھی حکومت پاکستان سے لیا ہو۔ جو مجھ پر تنقید کرتے ہیں ان سابق وزراء کی تصاویر میں نے اپنے تصویر سے اوپر لگوائی ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے، دوسروں کو سمجھانے کے بجائے پہلے ہم خود دیکھیں کہ میں کیا ہوں؟، میرے پاس جو محکمے ہیں میں اپنے عوام کے سامنے ان کی ایک ایک پائی کا ذمہ دار ہوں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ قومی اثاثہ ہے جسے میں مفت نہیں بیچ سکتا، میرے پاس اس وقت تین محکموں کی وزارت ہے، نجکاری کے محکمے میں پی آئی اے کی نجکاری بھی شامل ہے، واضح کرنا چاہتا ہوں رواں سال مارچ میں عہدہ سنبھالا تو اس وقت پی آئی اے کے کیا حالات تھے اور اس کا خسارہ 830 ارب روپے تھا۔
پی آئی اے کی نجکاری کا سارا عمل نگران حکومت کے دور میں شروع ہوا تھا، میرے پاس نجکاری کا فریم ورک تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا ، کچھ دوستوں نے کہا کہ کاروبار اچھا چلاتے ہیں لیکن پی آئی اے کو نہیں چلا سکے، پی آئی اے کو چلانا یا ٹھیک کرنا میری ذمے داری نہیں ہے، میں نے صرف پی آئی اے کو بیچ کر حکومت کا خسارہ کم کرنا ہے۔
میں کبھی کسی کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، جو پی آئی اے کے ساتھ ہوا ، اسکا بیڑہ غرق کرنے میں کس نے کردار ادا کیا؟ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ کیوں نہیں ٹھیک کر کے گئے؟، پی آئی اے کو فروخت کرنے میں میری کوئی کوتاہی ہے تو ذمے داری لوں گا، نجکاری کے قانون سے میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا، جو وزیر نجکاری رہ چکے ہیں وہ بھی مشورے دے رہے تھے کہ کیا کرنا ہے، جو مجھے مشورہ دے رہے تھے وہ اپنے دور میں ان مشوروں پر عمل کر لیتے ، مجھ سے پہلے 25 وزرا رہے ہیں ، وہ اپنے دور میں اس کو ٹھیک کر لیتے، میں اپنے قومی اثاثے کو اونے پونے داموں نہیں بیچ سکتا، یہ میرا ذاتی کاروبار نہیں یہ قوم کا اثاثہ ہے۔ پی آئی اے کی بولی کیلئے 6 بڈرز نے اپلائی کیا تھا ، دنیا کی بہترین چارٹرڈ اکاؤنٹنگ کمپنی سے بولی کا تخمینہ لگوایا گیا، پی آئی اے منافع بخش ہوسکتی ہے ، اسے بھرتیوں اور لوگوں کو نکالنے سے علیحدہ کر لیں۔
عبدالعلیم خان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے معاملے میں حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں۔ پاکستان میں سٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر وقت الزام تراشی اور سیاسی مخالفت کے بجائے مسائل حل کرنے کی تجاویز کے ساتھ سامنے آئیں۔ جہاں تک پنجاب ایئر لائنز کا معاملہ ہے یا اس قسم کے خیالات ہیں صوبائی خود مختاری کے بعد ایسے منصوبوں پر سوچ بچار اچھی چیز ہے لیکن کیوں سارے مل کر پی آئی اے کو بچانے کے لیے کام نہیں کر سکتے۔ سینکڑوں ارب خسارے سے ملک کو کیسے نکالنا ہے اس طرف کیوں توجہ نہیں دی جاتی، ہم یہ چاہتے ہیں کہ خسارے کے بوجھ کو لے کر کوئی پی آئی خریدے کیا یہ ممکن ہے کہ سینکڑوں ارب خسارے کے ساتھ اور مستقل خسارے کے ساتھ کوئی خریدے گا۔ جہاں تک ملازمین کا تعلق ہے انکیں دیگر محکموں میں کھپائیں، کوئی حل تو نکالیں، جنہوں نے بھرتیاں کی ہیں وہ اپنے سیاسی فوائد تو حاصل کر گئے لیکن پاکستان کے فلیگ کیریئر کو تباہ کر کے اب تماشا دیکھ رہے ہیں۔ پی آئی اے کو جب تک سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پیشہ وارانہ انداز میں نہیں چلایا جائے گا اس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سینکڑوں ارب سالانہ خسارہ اٹھا رہے ہیں، یہ بوجھ عام آدمی پر ڈال رہے ہیں لیکن اپنی سیاسی انا اور جھوٹی انا کو ایک طرف نہیں رکھنا چاہتے، ہم اداروں کو قربان کر سکتے ہیں لیکن اپنی سیاسی انا کو قربان نہیں کر سکتے۔
آخر میں پروین شاکر کا کلام
قید میں گزرے گی جو عمر بڑے کام کی تھی
پر میں کیا کرتی کہ زنجیر ترے نام کی تھی
جس کے ماتھے پہ مرے بخت کا تارہ چمکا
چاند کے ڈوبنے کی بات اسی شام کی تھی
میں نے ہاتھوں کو ہی پتوار بنایا ورنہ
ایک ٹوٹی ہوئی کشتی مرے کس کام کی تھی
وہ کہانی کہ ابھی سوئیاں نکلیں بھی نہ تھیں
فکر ہر شخص کو شہزادی کے انجام کی تھی
یہ ہوا کیسے اڑا لے گئی آنچل میرا
یوں ستانے کی تو عادت مرے گھنشیام کی تھی
بوجھ اٹھاتے ہوئے پھرتی ہے ہمارا اب تک
اے زمیں ماں تری یہ عمر تو آرام کی تھی