امریکی صدارتی ایلچی آموس ہوچسٹین کے دورہ لبنان ملتوی ہونے کے بعد لبنانی عوام کی فوری جنگ بندی کی امیدیں معدوم ہونے کے ساتھ اسرائیلی ردعمل سامنے آیا ہے۔
مذاکرات زیربحث
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے تصدیق کی کہ مذاکرات اب فائرنگ اور بمباری کے نیچے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تل ابیب حزب اللہ کو دریائے لیتانی سے پار ہٹانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حزب اللہ کی صلاحیتوں کی تعمیر نو کو روکنے اور اسے شام کے راستے ہتھیاروں کی فراہمی روکی جائے۔انہوں نے وضاحت کی کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے 70 سے 80 فیصد میزائل سسٹم کو تباہ کر دیا ہے، لیکن دعویٰ کیا کہ اس جماعت کے پاس اب بھی میزائل کی صلاحیت موجود ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ان کی حکومت نے حزب اللہ سے نمٹنے کے حوالے سے تین آپشنز پیش کیے، لیکن اس نے چوتھے آپشن کا انتخاب کیا، جو کہ ان کے الفاظ کے مطابق "گروپ کی میزائل صلاحیتوں کو تباہ کرنا" تھا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ سابق سکریٹری جنرل حسن نصراللہ کا قتل اس وقت کیا گیا جب اس تجویز کو کابینہ میں بھاری اکثریت حاصل ہو گئی۔انھوں نے کہا کہ "اگر حزب اللہ اپنے منصوبے پر عمل کرتی تو معاملہ غزہ کے حالات سے کہیں زیادہ خراب ہوتا"۔یہ پیش رفت پیر کو امریکی حکام کے اس انکشاف کے بعد سامنے آئی ہے کہ امریکی صدارتی ایلچی آموس ہوچسٹین نے اپنا طے شدہ دورہ بیروت ملتوی کر دیا ہے۔ایکسیس ویب سائٹ کے مطابق "ہوچسٹین نے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بیری کو مطلع کیا کہ وہ اپنا بیروت کا دورہ اس وقت تک نہیں کریں گےجب تک تنازعے کے حوالے سے معاہدے پر لبنان کی پوزیشن واضح نہیں ہو جاتی"۔انہوں نے کہا کہ "گیند لبنانی ٹیم کے کورٹ میں ہے۔ ہم ہوچسٹین کے بیروت کے لیے روانہ ہونے سے پہلے لبنان سے جواب چاہتے ہیں"۔
13 نکاتی فارمولہ
قابل ذکر ہے کہ لبنان کے وزیر محنت مصطفیٰ بیرم نے سرکاری طور پر ایک پریس بیان میں اعلان کیا تھا کہ نبیہ بری جسے پہلے حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا اختیار دیا تھا امریکی تجویز کو قبول کرتے ہوئے ہوچسٹین کو جنگ بندی کے لیے مثبت جواب دیں گے۔تاہم بیرم جو کہ حزب اللہ سے وابستہ ہیں نے بیری کے دورے کے بعد زور دیا کہ یہ معاملہ فی الحال "اسرائیلی فریق تک ہے جس نے پہلے جنگ بندی کو مسترد کیا تھا اور اپنی جارحیت جاری رکھی تھی"۔امریکی تجویز پر لبنان کے سابقہ تحفظات کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ ان میں سے کچھ تحفظات ریاست کی خودمختاری کے اصول سے متعلق تھے۔ انہیں لبنانی فضائی حدود میں نقل و حرکت کی آزادی کے حوالے سے ہٹا دیا گیا، جس کا اسرائیل نے پہلے مطالبہ کیا تھا۔ .ان اہم نکات میں سے جو سب سے نمایاں سمجھا جاتا ہے اور لبنان کی طرف سے گذشتہ جنگ بندی مذاکرات میں مسترد کر دیا گیا تھا یہ نکتہ شامل تھا حزب اللہ کی جانب سے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کو کارروائی کا حق حاصل ہوگا‘‘۔لبنانی حکومت کے ایک اہلکار نے گذشتہ جمعے کو انکشاف کیا تھا کہ امریکی سفیر لیزا جانسن نے نگراں وزیر اعظم نجیب میقاتی اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے ملاقات کرتے ہوئے "13 نکاتی امریکی تجویز" کی مخالفت کی تھی۔یہ تجویز جس کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئیں اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر مبنی ہے، جس میں جولائی 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ لبنانی فوج جنوبی لبنان پر اپنے اختیار کو بڑھا دے۔ جنوبی لبنان سے عسکریت پسندوں کو ہٹائے اور ان کے ہتھیار ان سے واپس لے۔ اس میں ابتدائی جنگ بندی بھی شامل ہے جس میں 60 دن کی توسیع کی گئی ہے۔