اسرائیل ایک سال تک غزہ سے دستبردار نہیں ہو گا

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اگلے سال کے اختتام سے پہلے غزہ کی پٹی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ایسا اس لیے کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کو شمالی، جنوبی اور وسطی حصوں کے درمیان منقطع علاقوں میں تبدیل کر دیا ہے۔اسرائیلی اخبار ’’ہاریٹز‘‘کی رپورٹ کے مطابق یہ بات اسرائیلی فوج کی جانب سے متاثرہ سیکٹر میں کی گئی کارروائیوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے تباہ شدہ علاقوں کو ڈیمز اور چوڑی سڑکوں سے الگ کردیا ہے۔ اسی طرح فوجیوں کی پوزیشنوں کے اندر پانی، سیوریج اور بجلی کے نیٹ ورک بنا لیے ہیں۔ یہ مناظر شمال، جنوب اور مرکز میں، نٹساریم کوریڈور اور دیگر مقامات پر نظر آرہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کم از کم پہلے مرحلے میں اسرائیلی فوجیں طویل عرصے تک یہاں موجود رہے گی۔

گراف سے واضح
اسرائیلی اخبار کے مطابق لیکن یہ صرف وہی مناظر نہیں ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیلی فوج اگلے سال کے آخر تک موجود رہے گی بلکہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیلی فوجیوں اور کمانڈروں کو بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ پیش کیا گیا ’’جنگی چارٹ‘‘ یہی دکھا رہا ہے۔ چند ہفتے قبل اسرائیلی فوج نے عمارتوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی ایک زبردست مہم شروع کی تھی۔ اس مہم سے کسی کے لیے ان میں رہنا یا چھپنا ناممکن ہو گیا۔ پھر اس نے مزید مستقل فوجی سہولیات کی تعمیر کی تیاری کے لیے غزہ کی پٹی کو 4 حصوں میں تقسیم کیا۔اس تناظر میں اسرائیلی فوجیوں میں سے ایک نے تصدیق کی ہے کہ ہمارے پاس ایک باورچی خانہ، ایک عبادت گاہ اور محفوظ کنٹینرز ہیں۔ اس فوجی عہدیدار نے غزہ کی پٹی کو شمال اور جنوب میں دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نٹساریم کوریڈور کے قریب خدمات انجام دی ہیں۔ اس نے کہا وہ اور اس کے ساتھی اس علاقے میں بعض اوقات بغیر ہیلمٹ اور حفاظتی واسکٹ کے گھومتے تھے۔ بلکہ اس جگہ کے اندر فٹ بال کھیلتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی جنگی علاقے میں نہیں ہیں۔

شمال سے انخلا
اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر غزہ کی پٹی کے شمال کو آبادی سے خالی کرایا حالانکہ سیاسی رہنماؤں نے بار بار اس پر عمل درآمد سے انکار کیا اور اسے غزہ میں جرنیلوں کا منصوبہ کہا تھا۔ اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ کی پٹی میں اب بھی کھڑی عمارتوں کو منظم طریقے سے مسمار کیا ہے۔اس تناظر میں غزہ میں موجود ایک سینئر اسرائیلی فوجی کمانڈر نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران اسرائیلی افواج سے صرف ایک چیز پوچھی گئی تھی۔ اور وہ چیز فلسطینی آبادی کو جنوب میں منتقل کرنے، عمارتوں کو زمین سے برابر کرنے اور پھر وہاں فوج کی پوزیشنیں بنانے سے متعلق تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فوجی مقامات صرف ایک یا دو ماہ تک چلنے کے لیے نہیں بنائے گئے تھے فلاڈیلفیا کوریڈور جسے صلاح الدین کوریڈور بھی کہا جاتا ہےجس اسرائیلی منصوبے پر عمل کیا جا رہا ہے اس کے مطابق اسرائیلی نہ صرف شمالی غزہ بلکہ غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں کم از کم چار بڑے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شمالی غزہ اور نٹساریم کوریڈور کی طرف اسرائیلی افواج نے تمام عمارتوں کو تباہ کردیا اور اس زمین کو ایک بنجر صحرا میں تبدیل کر دیا اور پھر یہاں اپنے مراکز قائم کرلیے۔ فلاڈیلفیا کوریڈور (صلاح الدین کوریڈور) میں بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں بھی اسرائیلی فوج اس کوریڈور کو توسیع دے رہی ہے اور اس کے قریب موجود عمارتوں کو تباہ کر رہی ہے۔اقوام متحدہ نے ماضی میں بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزہ کی پٹی میں جو تباہی دیکھی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی،۔ دو تہائی عمارتیں جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں اور پورے علاقے کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ مذاکرات کے کئی پچھلے ادوار جنگ بندی پر منتج نہیں ہوئے۔ یہ ناکامی خاص طور پر اس لیے ہوئی کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کے کئی علاقوں میں فوجی موجودگی پر اصرار جاری رکھا۔

ای پیپر دی نیشن