بالآخر امریکی صدر بارک اوباما نے بھی کیری لوگر بل پر دستخط کر دیئے۔ اب یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ وہی بل ہے جس پر فوج کو شدید تحفظات تھے جس کا فوج کی طرف سے برملا اظہار میڈیا کے ذریعے کیا گیا۔ اپوزیشن اور کئی حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کا ایک بڑا حلقہ بھی کیری لوگر بل سے مطمئن نہیں تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ صدر وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کے بعد بھاگے بھاگے امریکہ گئے تاکہ امریکیوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر کے بل سے قابلِ اعتراض شقیں نکلوا دیں۔ ان کی بڑے بڑے امریکیوں سے ملاقات ہوئی۔ جان کیری نے ہمارے وزیر خارجہ کے کان میں کھُسر پھُسر کی اور ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑا کر کہا جناب اس بل کے ساتھ یہ وضاحتی بیان لگا دیں گے جس سے آپ کے تحفظات دور ہو جائیں گے۔ اسی پر خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے وزیر خارجہ پہلی پرواز سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ کیری لوگر بل قانون بن چکا ہے۔ لیکن وضاحتی بیان قانون کا حصہ نہیں ہے۔ حکومتی اکابرین بڑے پڑھے لکھے ہیں اپوزیشن میں بھی قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ حکومت تو بل کو اس کی اصل صورت میں ہی قبول کر چکی تھی۔ فوج اپوزیشن اور دیگر سیاسی حلقوں نے مخالفت کی تو حکومت بھی اس میں ترمیم کرانے پر رضامند ہو گئی… اب امریکہ نے گول مول وضاحت کر کے حکومت کو پھر مطمئن کر دیا لیکن حکومت بل کے مخالفین کو قائل نہیں کر سکی۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف سے کیری لوگر بل کو امریکی حکومت کی وضاحت سمیت مسترد کر دیا ہے۔ اسے اپوزیشن کی مخالفت برائے مخالفت پالیسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پہلی دفعہ ایسی اپوزیشن سامنے آئی ہے جس کی خواہش ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ اپوزیشن کے ایسے اقدامات کے باعث اپوزیشن کو فرینڈلی اپوزیشن کا بھی طعنہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن کی طرف سے بل کی مخالفت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عجیب اتفاق ہے کہ فوج کی طرف سے کیری لوگر بل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تو دہشت گردی کی کارروائیوں سے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ پشاور میں خودکش حملہ میں 50 سے زائد افراد مارے گئے سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ جی ایچ کیو پر حملہ تو پاکستان کی سالمیت پر حملے کے مترادف ہے۔ جہاں 15 افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردی کی واردات ناکام بنا دی۔ سب سے بڑی کامیابی حملہ آوروں کے سرغنہ کی گرفتاری ہے۔ لاہور میں ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے‘ مناواں کے پولیس ٹریننگ سنٹر پر جی ایچ کیو پر حملے کی طرز پر حملے کئے گئے اسی روز کوہاٹ میں بھی دو حملے کئے گئے۔ اگلے روز پشاور میں بھی خودکش حملہ ہوا… خودکش حملے اپنی جگہ‘ ممبئی پر ہونے والے حملوں کی طرز پر جی ایچ کیو اور لاہور میں تین مقامات پر ہونے والے حملے کسی بیرونی طاقت کے ملوث ہوئے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ بیرونی طاقت بھارت کے سوا کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ مرنے والوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی غیر ملکی ساخت کا ہے۔ 30 مارچ کو مناواں پر حملے کے دوران گرفتار ہونیوالا دہشت گردی ہجرت اللہ کا تعلق افغانستان سے تھا۔ جہاں بھارت کے 16 قونصل خانے کام کر رہے اور وہاں یہی کام کرتے ہیں۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنیکا اسے تباہ کرنے کا۔ اب ہمیں جاگ جانا چاہئے اور بھارت کو اس کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔
کیری لوگر بل… اور دہشگردی کی کارروائیاں
Oct 19, 2009
بالآخر امریکی صدر بارک اوباما نے بھی کیری لوگر بل پر دستخط کر دیئے۔ اب یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ وہی بل ہے جس پر فوج کو شدید تحفظات تھے جس کا فوج کی طرف سے برملا اظہار میڈیا کے ذریعے کیا گیا۔ اپوزیشن اور کئی حکومتی اتحادیوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کا ایک بڑا حلقہ بھی کیری لوگر بل سے مطمئن نہیں تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی‘ صدر وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کے بعد بھاگے بھاگے امریکہ گئے تاکہ امریکیوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر کے بل سے قابلِ اعتراض شقیں نکلوا دیں۔ ان کی بڑے بڑے امریکیوں سے ملاقات ہوئی۔ جان کیری نے ہمارے وزیر خارجہ کے کان میں کھُسر پھُسر کی اور ان کے ہاتھ میں ایک کاغذ پکڑا کر کہا جناب اس بل کے ساتھ یہ وضاحتی بیان لگا دیں گے جس سے آپ کے تحفظات دور ہو جائیں گے۔ اسی پر خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے وزیر خارجہ پہلی پرواز سے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ کیری لوگر بل قانون بن چکا ہے۔ لیکن وضاحتی بیان قانون کا حصہ نہیں ہے۔ حکومتی اکابرین بڑے پڑھے لکھے ہیں اپوزیشن میں بھی قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ حکومت تو بل کو اس کی اصل صورت میں ہی قبول کر چکی تھی۔ فوج اپوزیشن اور دیگر سیاسی حلقوں نے مخالفت کی تو حکومت بھی اس میں ترمیم کرانے پر رضامند ہو گئی… اب امریکہ نے گول مول وضاحت کر کے حکومت کو پھر مطمئن کر دیا لیکن حکومت بل کے مخالفین کو قائل نہیں کر سکی۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف سے کیری لوگر بل کو امریکی حکومت کی وضاحت سمیت مسترد کر دیا ہے۔ اسے اپوزیشن کی مخالفت برائے مخالفت پالیسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پہلی دفعہ ایسی اپوزیشن سامنے آئی ہے جس کی خواہش ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ اپوزیشن کے ایسے اقدامات کے باعث اپوزیشن کو فرینڈلی اپوزیشن کا بھی طعنہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن کی طرف سے بل کی مخالفت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عجیب اتفاق ہے کہ فوج کی طرف سے کیری لوگر بل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تو دہشت گردی کی کارروائیوں سے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا گیا۔ پشاور میں خودکش حملہ میں 50 سے زائد افراد مارے گئے سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ جی ایچ کیو پر حملہ تو پاکستان کی سالمیت پر حملے کے مترادف ہے۔ جہاں 15 افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردی کی واردات ناکام بنا دی۔ سب سے بڑی کامیابی حملہ آوروں کے سرغنہ کی گرفتاری ہے۔ لاہور میں ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے‘ مناواں کے پولیس ٹریننگ سنٹر پر جی ایچ کیو پر حملے کی طرز پر حملے کئے گئے اسی روز کوہاٹ میں بھی دو حملے کئے گئے۔ اگلے روز پشاور میں بھی خودکش حملہ ہوا… خودکش حملے اپنی جگہ‘ ممبئی پر ہونے والے حملوں کی طرز پر جی ایچ کیو اور لاہور میں تین مقامات پر ہونے والے حملے کسی بیرونی طاقت کے ملوث ہوئے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ بیرونی طاقت بھارت کے سوا کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ مرنے والوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ بھی غیر ملکی ساخت کا ہے۔ 30 مارچ کو مناواں پر حملے کے دوران گرفتار ہونیوالا دہشت گردی ہجرت اللہ کا تعلق افغانستان سے تھا۔ جہاں بھارت کے 16 قونصل خانے کام کر رہے اور وہاں یہی کام کرتے ہیں۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنیکا اسے تباہ کرنے کا۔ اب ہمیں جاگ جانا چاہئے اور بھارت کو اس کی کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔