ملالہ کے والد ایک تعلیم یافتہ‘ باشعور اور حساس شاعر ہیں۔ وہ انسانیت کی سر بلندی کے قائل ہیں۔ انھوں نے اپنی بیٹی کا نام ایک حریت پسند عورت کے نام پر رکھ کر اپنی دھرتی اور دنیا کو پیغام دیا کہ اس خطے کے لوگ بنیاد پرست اور بے علم نہیںبلکہ علم سے محبت اور اعلیٰ انسانی قدروں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ انھوں نے اپنی بیٹی کی پرورش اس انداز سے کی کہ اُن کے تمام نظریات، خیالات اور احساسات ملالہ میں سرایت کر گئے۔ اُنھوں نے اُسے ڈکٹیشن دینے کی بجائے ایسا ماحول فراہم کیا جس میں اُسے آزادی سے سوچنے کا موقع ملا
دیکھا جائے تو ملالہ پر فائرنگ کا یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں‘ روزانہ ایسے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں مرد‘ عورتوں اور لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس واقعے کی مذمت اس حوالے سے کرنی معصومیت ہے کیونکہ روزانہ ہونے والے حملے کرائم کہلاتے ہیں اور سب ان کی مذمت کرتے ہیں۔مگر یہ واقعہ جرم نہیں کیونکہ یہ کسی عورت یا لڑکی پر حملہ نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک فکر، ایک نظریے اورایک طرزِ زندگی پر حملہ ہے ، حملہ آور کامقصد ایک لڑکی کو قتل کرنا نہیں بلکہ اُس طرزِ زندگی اور فکر کو ختم کرنا ہے جسے وہ نا پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ خوف اور دہشت سے لوگوں کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ اپنی طرزِ حیات کو چھوڑ کر اس کی پسندیدہ طرزِ زندگی کو اپنائیں۔
ہم سب اس ریاستِ پاکستان کے شہری ہیں اور ایک معاہدہ کے پابند ہیں، جیسے آئین پاکستان میں فرد اور ریاست کے حقوق و فرائض درج ہیں۔ ریاست نے جو حقوق افراد کو دئیے ہیں ان میں تعلیم ، تقریر، روزگار اور آزادی فکر و غیرہ سرفہرست ہیں۔ اس واقعے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ آئین پر بھی حملہ ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اس ریاست کے دئیے ہوئے حقوق و فرائض کو نہیں مانتے جنھیں ہم آئنی ذمہ داریاں کہتے ہیں۔بلکہ طاقت اور بندوق کے ذریعے اپنی فکر پر عمل کرانا چاہتے ہیں اس لئے یہ گولی آئین کے خلاف ہے اور اُس دستاویز کے خلاف بھی جو اس طرزِ زندگی کی ضمانت ہے مگر جو انھیں قابل قبول نہیں۔ پے در پے مارشل لاﺅں نے اس جنگجو کلچر کو جنم دیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے تمام عدالتی‘ دفاعی اور انتظامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ آئین پاکستان پر عمل درآمد کرا کے اس کے تقدس کو بحال کرائیں۔ اس مقصد کیلئے تمام اداروں کو ایک ہو کر ان کے خلاف نبرد آزما ہونا پڑے گا تب ہی نجات کی صورت نکلے گی۔ حملہ آور پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس میں ریڈیو، ٹی وی، ٹیکنالوجی نہ ہو اور نہ ہی سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہوں بلکہ صرف وہ مدرسے ہوں جو دنیاوی تعلیم کی بجائے صرف اُن کے فقہ اور فرقے کے مطابق تعلیم دیں۔ ملالہ سے ان لوگوں کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی وہ تو اس کی صورت بھی نہیں پہچانتے تھے۔ وہ صرف ملالہ کے طرزِ زندگی اور طرزِ فکر کو جانتے تھے مگر فرد سے واقف نہیں تھے اس لیے اس واقعے کو افراد کے حوالے سے نہ دیکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پورے ملک کے لوگوں نے ملالہ سے اظہارِ یکجہتی کرکے اس کی سوچ اور فکر کو درست قرار دیا ہے اور اس فکر پر حملہ کرنے والوں کو ناپسند کیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے اس واقعے پر جو بیان جاری کیا اُس میں ملالہ کی فکر سے اتفاق اور دل کا درد عیاں تھا اور اس درد کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُنھوں نے پچھلے سال ہی تو ملالہ کو ایوانِ وزیراعلی بُلا کر ایک باوقار تقریب میں اُسے پانچ لاکھ روپے کا انعام پیش کیا اور اُس کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اسی طرح خادمِ پنجاب پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے ملالہ کی صحت اور سلامتی کیلئے صوبے میں یومِ دعا منانے کا اہتمام کیا۔علاوہ ازیں ملالہ کی عیادت کے لیے راولپنڈی میں اُس کے والد اور ماموں کی موجودگی میں دانش سکول اٹک کو ملالہ کے نام سے منسوب کرنے کا اعلان کیا جس میں سوات کی بچیوں کیلئے خصوصی کوٹہ رکھا جائے گا۔وزیراعلی کا ملالہ کے مشن کو اپنا اور حکومتِ پنجاب کا مشن کہنا ایک خوش آئند مستقبل کی نوید ہے۔ملالہ اور ارفع جیسی بیٹیاں اس دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں ارفع کو تقدیر نے ہم سے چھین لیا لیکن ہم اپنے وطن کی ہر ملالہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
”ملالہ“ ایک طرزِ فکر
Oct 19, 2012