مسلم لیگی دھڑوں سے ایک جھنڈے تلے متحد ہونے کی اپیل

مکرمی!پاکستان مسلم لیگ کا کرکن ہوں جب قائد اعظم محمد علی جناح 28اپریل 1944ءکو سیالکوٹ مسلم لیگ کے جلسے کے لئے تشریف لائے تھے میں اور میرا دوست شیخ صلاح الدین جو آجکل پیسہ اخبار میں ہوٹلنگ کا کاروبار کرتا ہے جلسے میں شرکت کے لئے مولا بخش تالاب گئے، قائد نے اس جلسے میں اپنی تقریر انگلش میں کی اور سردار عبدالرب نشتر نے اردو میں ترجمہ کیا تھا، اس زمانے میں سیالکوٹ مجلس احرار کا گڑھ تھا اور اس کی پشت پناہی یونیسٹ، اور کانگریس کرتے تھے جس کی بناءپر مسلم لیگی لیڈرز سید مرید حسین شاہ صاحب، چوہدری ناصر احمد اور ملہی صاحب نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ سیالکوٹ تشریف لائیں مورخہ28,29,30اپریل 1944ءیہاں پر قیام کیا اور یہاں سے سری نگر تشریف لے گئے، قائد اعظم کی ایک تقریر نے سیالکوٹ کی کایا پلٹ دی، مجلس احرار الیکشن 1946ءمیں بری طرح ناکام ہوئی اور مولانا مظہر علی کو کئی ہزار ووٹ سے شکست ہوئی جس کے نتیجے میں سیالکوٹ پاکستان کا حصہ بنا۔ میرے اس خط کا مقصد یہ ہے کہ مسلم لیگ کے تینوں مختلف دھڑوں کو ایک مسلم لیگ کے جھنڈے تلے آ جانا چاہیے۔ علامہ اقبال نے کوشش کی تھی جبکہ اس وقت مسلم لیگ میں افراتفری اور ناچاکی بے اتفاقی تھی کہ قائد اعظم مسلم لیگ اور ہندوستان کو چھوڑ کر انگلینڈ چلے گئے تھے، ویسی ہی افراتفری اور ناچاکی اور بے اتفاقی پھوٹ اور اس وقت مسلم لیگ میں ہے پھر علامہ اقبال کی بے پناہ کوششوں کی وجہ سے دسمبر1933ءکے آخری ہفتے میں واپس تشریف لائے۔ 4مارچ 1934ءکو دونوں دھڑوں کی دہلی میں میٹنگ ہوئی اور قائد اعظم کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا، خان بہادر حافظ ہدایت حسین اعزازی سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اب ہم سب پرانے کارکنوں کی خواہش ہے کہ تمام لیڈر اب جس مسلم لیگ کے ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں پاکستان کو مستحکم کرنے کے جستجو میں لگ جائیں، اسی میں ہماری بقاءہے۔(حاجی رانا محمد شفیع، سلہریا ہاﺅس وارڈ نمبر6، صدر بازار، سیالکوٹ کینٹ)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...