ملالہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ حکمرانوں کے منہ پرطمانچہ ہے

نام نہاد دہشت گردوں نے 14 سالہ بچی ملالہ یوسف زئی کو بھی معاف نہیں کیا۔ اسے گولیاں مار کے اندھی بربریت اور ظلم کیا۔ کیا یہ وحشیانہ عمل ہے۔کیا ایسے لوگوں کے سینوں میں دل نہیں؟درندے اور بھیڑیئے وطن عزیز میں کون سا کھیل کھیل رہے ہیں؟ انہیں متحد ہو کر لگام دینی پڑے گی۔ وگرنہ یہاں آئے دن ہر بچی ملالہ کا نقشہ پیش کرتی نظر آئے گی۔ یہ بہت بڑی سازش تیار کی گئی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت سعودی دارالحکومت الریاض سے محترمہ قاسیہ مرزا رقم طراز ہیںکہ ملالہ یوسف زئی کا حالیہ سانحہ ملالہ موجودہ حکمرانوں کے چہرے پر طمانچہ ہے۔تاہم اگر سیاست کرنے کی بجائے متذکرہ سانحہ کا صحیح معنوں میں نوٹس نہیں لیا گیا۔ تو وطن عزیز کی 4 کروڑ ملالائیں اپنے تحفظ کی آس میں موت کو گلے لگانے پر مجبور ہو جائیں گی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملالہ کا سانحہ بربریت اور سفاری کی زندہ مثال ہے۔ ساڑھے چار سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پی پی پی (جو کہ بینظیر بھٹو کی جماعت نہیں رہی) لٹیروں اور ڈاکو¶ں کی جماعت بن کر رہ گئی ہے‘ نے حکومت میں ہونے کے باوجود محترمہ کے قاتلوں کو گرفتار کر کے انہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے اور 18 کروڑ عوام کو کھلی آنکھ سے برہنہ کر دیا ہے۔ جبکہ ملک میں مہنگائی‘ بھوک‘ بیروزگاری نے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے،اسی دور حکومت میں اجتماعی خودسوزی اپنے آپ کو سمندر میں ڈبو دیا۔ ڈرگ بیچنے اور عزتیں نیلام ہونے پر کیوں حکومت نہ جاگی؟ آج ہم ایک ایسے چوراہے پر کھڑے ہیں جہاں نہ کوئی پولیس والا ٹریفک کو روکنے کھڑا ہے۔ پاکستان میں بنا سگنل عوام کو بے دردی و سفاکی کا یہ تماشہ¿ شب و روز اندازاً 300 سو لوگ روزانہ بے موت مارے جاتے ہیں اور ان کا کوئی والی وارث نہیں۔
اس تفصیل کا مقصد عوام کو جو کہ اس وحشت ناک زندگی کے جو کہ مردوں سے بدتر ہے جب پیٹ میں روٹی نہ ہو۔ تن پر کپڑا سر پر چھت تعلیم ناپید صحت کے نام پر ڈاکٹرز ڈاکو¶ں کا کردار ادا کر رہے ہیں اور بے بس و بے کس عوام کو ملالہ یوسف زئی جیسا واقعہ جو کہ حسب معمول تاریخ کا دھندلا واقعہ بن کر رہ جائے گا۔ الیکشن قریب ہے پہلے بی بی شہید کی موت کو کیش کراتے رہے اور اب ملالہ کے حادثے کو کیش کرانے پر سیاستدان میدان وحشت و بربریت میں سبقت لے جانے کو تیار کھڑا ہے۔
کرائے کے بھوکے ننگے لوگوں کو بسوں میں بٹھا کر اپنے جلسے کامیاب کرنے پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ کبھی مولانا فضل الرحمن تو کبھی زرداری کی پی پی پی اور کبھی الطاف حسین کی ایم کیو ایم ان کی خوبی یہ ہے کہ ایک زمانے سے ملک سے غائب برطانیہ کی شہریت لے کر آسودہ زندگی گزار رہے ہیں اوران کے خطاب کا انداز ہی نرالا ہے۔ ٹیلیفونک جس پر کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ کیا محب وطن لیڈر ایسے ہوتے ہیں؟
پاکستان جس مقصد کیلئے معرض وجود میں آیا تھا وہ مسلمانوں کی عزت نفس خودداری اور خودمختاری کی بنیاد پر آیا تھا لیکن 1947ءپھر1971ءکے خون کی ندیوں کو جن میں معصوم و بے قصور لاشوں کا انبار سمندر کی شکل اختیار کر گیا تھا۔یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ دنیا کا واحد بڑی ترین آبادی والا ملک 99 فیصد صرف اور صرف مسلمانوں کی میراث ہے۔ ہم دوسروں پر الزام تراشی کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔کبھی بن لادن کی شکل میں کبھی تحریک طالبان یا پنجابی طالبان اب بھی اگر قوم کو عقل نہ آئی اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہ کیا تو غاصب پھر ہم پر مسلط ہو جائیں گے۔خدارا جاگیں اور صحیح غلط کی تمیز کریں۔ان لٹیروں سے جنہوں نے ملالہ جیسی معصوم بچی پر جو زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے جسے خود نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ اب انقلاب کی ضرورت ہے۔ملکوں کی تاریخ اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب عوام اپنی اصل طاقت کو پہچانیں۔حکومت کے نام پر عوام کو عزت و ناموس کا برہنہ بازار بنا کر رکھ دیا۔اس حکومت نے ادارے تباہ و برباد کردیئے ہیں بلکہ ہو چکے ہیں۔
اب آپ کو پھر کسی ملالہ یوسف زئی کے سفاکانہ حادثے کا انتظار ہے۔ خدارا اپنی بہنوں‘ بیٹیوں‘ ما¶ں کے تحفظ کیلئے اس میدان وحشت و بربریت کواپنے پیروں تلے کچل ڈالیں۔ نیست و نابود کر دیں۔
ملالہ یوسف زئی کے واقعے کو انہوں نے کیش کرانے کی کوشش ناکام کی ہے۔ جس ملک میں مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہو بنا کسی قصور جہاں بوری بند لاشیں ڈرون حملے اپنی ہی فوج کو دوسروں کی جنگ میں جھونک دینا کیا یہ حکومت کے فیصلے ہیں جب حکومت وقت کھلی منڈی بن جائے اپنے ہی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے تو پھر آپ یعنی عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے نبھائیں۔
کیا قائداعظم کا پاکستان اور علامہ اقبال کا خواب یہ تھا کہ جہاں خون کی ندیاں بے دریغ بہہ رہی ہوں نہیں ہرگز نہیں انہوں نے ہمیں خودمختاری دلائی اور ہمارے بے ضمیر لیڈران نے اسے بنا دام بیچ کر بلاخوف و خطر سرعام پھر رہے ہیں۔ ان کی سکیورٹی پر عربوں کا خرچہ آتا ہے اگر یہ ایماندار ہو جائیں تو عوام ان کا احترام کرے اور وہی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔ پاکستان میں کیا نہیں ہے۔ پاکستانی قوم ناقابل تسخیر ہے۔ اس کی مٹی میں دفن ہر وہ قیمتی چیز جس کو استعمال میں لا کر بھیک کے اس کشکول کو چورا چورا کر سکتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان حکمران کے سب سے پہلے سوال انہیں سے ہو گا کیونکہ یہ ماں باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ماں باپ بے حس‘ بد کردار‘ بے ضمیر ہو جائیں ا ور توقع یہ کریں کہ ہماری اولاد مثالی ہو گی۔ کھلی آنکھ سے خواب دیکھنا چھوڑیئے اور اپنے حق کو بآواز بلند مانگئے 8 دن سے ملالہ یوسف کا تماشہ ہر ٹی وی چینل کی زینت بنا ہوا ہے اور مذاق یہ ہے کہ نہ ٹی وی دیکھنے والے کو حقیقت کا پتہ نہ اینکرز کو اس تماشے سے کچھ حاصل ہوا۔ رحمان ملک جو کہ عافیہ صدیقی جیسی عظیم کیلئے کچھ نہ کر سکے اور حکومت امریکہ پر زور ڈال کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں مغرب سے تو کوئی احساس شرمندگی یا ملامت کا پروانہ حکومت زرداری کو نہ ملا اپنے منہ میاں مٹھو والی بات ہے۔
ملالہ کے علاج کو بھی ایک ڈرامے کی شکل دے دی گئی۔ متحدہ عرب امارات سے میڈیکل ایمبولینس آ بھی گئی اور ملالہ کے جانے کی خبر کو اتنا خفیہ رکھا گیا کہ جیسے اس کو گولی لگنا اس کا اپنا جرم ہو۔ رحمان ملک اور صدرزرداری آپ اب عوام کو اور وہ عوام جنہوں نے ملالہ کیلئے صدق دل سے دعائیں کیں اس کی لمبی زندگی شفا کامل و عاجل اس کا نصیب ہو گولی لگنے کے بعد جو پہلی تصویر دکھائی گئی اس کے بعد صرف بیان بازی کے علاوہ نہ عوام کو کچھ نظر آیا‘ قتل بھی آپ کریں قتل ہونے و الے کو قاتل بھی آپ ہی ٹھہرائیں۔
ملالہ یوسف زئی کے علاج کو ایک معمہ بنا کر رکھ دیا ہے۔آج ہم اپنے ملک پاکستان میں اتنے غیر محفوظ کیوں ہیں؟ اس سوال پر غور کیجئے۔ شاید آپ کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں۔

ای پیپر دی نیشن