عوام کی باتیں حکمرانوں کی باتوں سے کبھی بھی میل نہیں کھاتیں دونوں کے مفادات جداجدا ہوتے ہیں شریعت حکومت کا مفاد یہ ہے کہ اسکے اخراجات کے لئے پیسہ میسر آتا ہے اسکے Creditors قرضوں کی بروقت ادائیگیوں سے خوش رہیں انکے شرائط ناموں پر من و عن عمل کریں، آقا خوش رہیں گے تو حکمرانوں کا دل نہال رہے گا عوام کے بڑ بڑ کرتے رہنے کی پرواہ کون کرتاہے۔ بادلوں کی گڑ گراہٹ تھوڑی دیر کے لئے تو ہوتی ہے۔ تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے کیا ہوا اخبارات کے اداریوں، ٹی وی ٹاک شوز میں مذمت ہوئی عوام نے بھی ایک دوسرے کے سامنے حکمرانوں کو برا بھلا کہہ کر اپنا دل ٹھنڈا کرلیا، عوام کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی، پرویز مشرف ملک سے باہر جاتے ہیں یا چک شہزاد کی چاردیواری میں ٹہلتے ہیں، طالبان سے بات چیت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، ملالہ کے حق میں باتیں ہو رہی ہیں یا اسے قابل ملامت سمجھا جا رہا ہے، 11 مئی کے انتخابات میں مقناطیسی سیاہی کا استعمال کیوں نہیں ہوا تھا؟ انسداد دہشت گردی کے ترمیمی آرڈیننس کے بعد دہشت گردی سے نجات مل جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ملک کے کروڑوں عوام کا مفاد یہ ہے کہ ان کی ضرورتیں ان کی آمدنی سے پوری ہوتی رہیں حکومت ان پر بار بار تیل اور بجلی کے ڈرون حملے بند کردے، بجلی کے صارفین کی درجہ بندی کر دی گئی ہے 50 یونٹ بجلی ماہانہ استعمال کرنے والوں کے لئے بجلی کی قیمت 2 روپے فی یونٹ جبکہ 700 سے زائد یونٹ کے صارفین 18 روپے فی یونٹ ادا کریں۔ 2013-14ءمیں بجلی پر سبسڈی کی مالیت 168 ارب روپے ہوگی۔ حکومت کی نظر میں بجلی کے پانچ اقسام کے صارفین ہیں چھٹی قسم چور صارفین کی ہے جن کے سامنے حکومت بے بس دکھائی دیتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کے ذمہ 300 ارب روپے سے زائد بجلی کی رقم واجب الادا ہے جس طرح ہر تھانیدار کو علم ہوتا ہے کہ اسکے تھانے کی حدود میں کتنے بدمعاش، کتنے منشیات فر وش، کتنے عصمت فروشی کے اڈے اور کتنے ذخیرہ اندوز اور گراں فروش ہیں۔ اسی طرح بجلی کمپنیوں کے ہر ایس ڈی او کو علم ہوتا ہے کتنی بجلی کہاں کہاں چوری ہو رہی ہے، کنڈے کن لوگوں نے ڈال رکھے ہیں، بجلی اور گیس چوروں اور نادہندگان سے واجب الادا بلوں کی ریکوری کس کی ذمہ داری ہے کسی بڑے بجلی یا گیس چور کا چہرہ ٹی وی پر آشکار نہیں کیا گیا کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنے کی 15 روزہ اشتہاری مہم پر سندھ حکومت نے تین کروڑ خرچ کئے اور صرف 16 افراد نے ہتھیار جمع کرائے۔ بجلی یا روٹی سستی ہونے کا خواب ا ب شاید کبھی بھی شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ کالا باغ ڈیم سے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی تھی یہ بھی سیاست کی نذر ہوگیا۔ بجلی کے صارفین کی درجہ بندی تو کردی ہے اب براہ راست ٹیکس لینے کے لئے خوشحال لوگوں کی بھی درجہ بندی کر لے۔ رعایتی SROs کا بھی خاتمہ کر دے رعایتیں اور Exemptions نظام عدل کی نفی کرتی ہیںعادلانہ اور منصفانہ نظام حکومت میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ بیساکھیوں کے سہارے زندگی بے مزہ ہوتی ہے اسی طرح آئی ایم ایف کے سہارے زندگی عوام کے لئے تو بے کیف ہوتی ہے جب روٹی مہنگی ہوتی ہے تو غریب بلبلانے لگتے ہیں، بجلی پر 168 ارب روپے کی سب سڈی دینے والی حکومت کو روٹی ہر قیمت پر پانچ روپے کی رکھنی چاہئے۔ حکومت میٹروبس پر 22 ارب خرچ کر سکتی ہے، دانش سکول بنا سکتی ہے، آشیانہ ہاﺅسنگ سکیمیں سامنے لا سکتی ہے تو پھر ہر محلے میں سرکاری تندور کیوں نہیں لگا سکتی۔ رمضان المبارک میں ضلعی حکومتیں سستے بازار اور سحر و افطار کے دسترخوان بھی تو سجاتی ہیں، تین دہائیوں سے ہم آئی ایم ایف کی بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ ہماری اکنامک پالیسی واشنگٹن میں ہی ٹائپ ہوتی ہے جس کے تحت ادائیگیوں کا توازن بگڑتا جا رہا ہے آئی ایم ایف بالعموم اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے لیکن پاکستان میں اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کرتا اسے ہماری آئی ایم ایف زدہ عوام کا واویلا اور میڈیا کی لعن طعن سنائی دیتی ہے لیکن وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے یہ سبق اسی سے سیکھا ہے ہمارے روپے کا زوال اسکے قیمتی مشوروں کا ہی مرہون منت ہے۔ 2014-15ءکے بجٹ میں بھی خسارہ ہوشرُبا ہوگا 2475 ارب روپے ٹیکس جمع کرنا آسان بات نہیں، مالی خسارہ جی ڈی پی کا 5.8 فیصد ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم نے اپنی غلطیوں سے خود کو آئی ایم ایف کے جال میں پھنسایا ہے۔