معاشرتی برائیوں کا تدارک کیسے؟

معاشرتی برائیوں کا تدارک کیسے؟

Oct 19, 2013

فہمیدہ کوثر

ہمارا آج کا معاشرہ ان اندوہناک مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے جس کا تدارک معاشرے کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ لیکن ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟ آج کے معاشرے میں جہاں جبلتیں شہر کی محکوم ہیں اور کوئی ایسا زینہ نہیں جو عالم جسمانی کو عالم روحانی سے مربوط کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تہذیب و شائستگی اور اخلاقی اقدار کی جگہ اس درندگی نے لے لی ہے۔ یہ وحشیانہ طرز عمل اور درندگی معاشرے میں کئی سوال چھوڑ جاتے ہیں۔
٭.... ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار تیزی سے روبہ زوال کیوں ہیں؟٭ مذہب عورت کو ایک خاص مقام عطا کرتا ہے ہم مذہب اسلام کے کس حد تک پیروکار ہیں؟٭ فرسٹریشن تلخ روئیے اور غیر متوازن ماحول انسان کی شخصیت پر کیا اثر ڈالتا ہے۔٭ کیا ہمارے ہاں مضبوط قانون کا فقدان ہے کہ مجرم کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں؟٭ قانون کا ڈر اور خوف اور احترام ان درندہ صفت انسانوں کے دلوں سے کیوں ختم ہو گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جرائم کی روک تھام اور حوصلہ شکنی کیسے ممکن ہے۔ تو ہمارے ہاں چھوٹی سطح سے لے کر بڑی سطح تک جواب دہی کا عنصر غائب ہے جب احساس ذمہ داری اور جواب دہی جیسے عناصر معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو خوف خدا کے ساتھ ساتھ قانون کا احترام بھی اس معاشرے کا جزو لاینفک بن جاتے ہیں۔افلاطون اپنے خیالی نظام حکومت میں زوال کی وجوہات میں لوگوں کی ذہنی کیفیتوں اور طبیعتوں کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس کے نزدیک کسی بھی مملکت کے اصول جس قدر اپنے معیار سے گرے ہوئے ہوں گے۔ اسی مناسبت سے وہاں کے شہری لالچ‘ ہوس ذہنی اور جنسی بیماریوں میں مبتلا ہوں گے اور وہ معاشرہ سچی خوشی اور مسرت سے محروم رہے گا۔“وہ کہتا ہے کہ جب دانائی‘ بہادری‘ جرات اور اعتدال کو عدل کے ذریعہ ملا دیا جائے تو معاشرے میں توازن پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسے اپنی مثالی دنیا اور نظام حکومت میں مملکت کے محافظوں سے ہمیشہ یہی توقع رہی کہ وہ سچائی اور نیکی سے اپنے دل و دماغ کو منور کریں۔ بلکہ ان کا عکس عوام میں بھی نظر آنا چاہئے۔یہ وہ ہی درس ہے جو امربا المعروف و نہی عن المنکر کے راستے سے سوسائٹی کو استحکام بخشتا ہے۔ سوسائٹی کی فلاح کےلئے اٹھنے والے ہاتھ یقینا اس معاشرے کےلئے باعث اعزاز ہوتے ہیں۔ عمل‘ آگہی اور شعور ہی انسان کی پہچان کا ذریعہ ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ افتخار پرنسپل باغبانپورہ اس لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتی ہیں کہ انہوں نے طالبات کے اندر وہ محرکات پیدا کئے کہ انہوں نے نہ صرف کالج کی سطح پر بلکہ کالج کے باہر بھی کارکردگی دکھائی۔ وہ ادبی شخصیت ہیں۔ لہٰذا حساسیت کی وجہ سے انہوں نے اپنے اس مقصد کی تکمیل کےلئے کالج کی سطح پر سیمینار منعقد کروائے جس سے طالبات میں شعور و آگہی کے ساتھ ساتھ ڈینگی جیسے مرض سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کےلئے حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں 30 ستمبر کو ہونے والے سیمینار کا مقصد بھی یہی تھا۔ جس میں پرویز ملک اور شائستہ پرویز ملک نے طالبات میں اسی جذبے کو ابھارا‘ شائستہ پرویز ملک اس سے قبل بھی دھوپ اور گرمی کی پرواہ کئے بغیر اپنے نیک ارادوں کی تکمیل کےلئے مصروف عمل رہی ہیں اور ان کا یہ سفر کئی سالوں پر محیط ہے اور وہ مبارکباد کی مستحق ہیں کہ اپنے مقصد میں کامیاب رہی ہیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمیں ہر سطح پر ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جہاں سے ہم خیر اور شر کے جذبے کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان مسائل‘ مصائب اور تکالیف سے آگاہ کرکے ان کا حل تلاش کرنے میں مدد دیں جس کا حل وہ نہیں جانتے تاکہ ایک بہترین معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے....
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

مزیدخبریں