چودھری محمد صبور
دنیا میں دس میں سے آٹھ لوگ کبھی نہ کبھی کمر اور گردن کی تکلیف میں متلا ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ تکلیف وقتی طور پر ہوتی ہے لیکن بہت سے لوگوں کے لئے یہ عمر بھر پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ ہم میں سے بہت لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ اس کا علاج تو ممکن ہے لیکن بدقسمتی سے کئی بار مرض کی تشخیص کے باوجود علاج ٹھیک طرح نہیں ہو پاتا۔
دن بھر کے کاموں میں انسان اتنا الجھا ہوتا ہے کہ وہ اپنی صحت کی طرف دھیان نہیں رکھ پاتا۔ جس کی وجہ سے وہ مختلف قسم کی تکالیف جن میں کمر‘ سر‘ گردن‘ جوڑوں وغیرہ کے درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ان بیماریوں کا سب سے زیادہ شکار دفتر‘ ہوٹل‘ ہسپتال اور فیکٹریوں وغیرہ میں کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
سارا دن کام کرنے سے انسان جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور نہ مکمل آرام اس کو تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں جب مےں ایک آرٹ ڈائریکٹر مس حنا سردار سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”میراپورا دن ایک ہی کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے ہوئے گزرجاتا ہے۔ اور شام کو گھریلو مصروفیات میں الجھ جاتی ہوں جس کی وجہ سے میں بالکل آرام نہیں کر پاتی اورپچھلے کچھ عرصے سے میں کمر درد کی مریضہ بن چکی ہوں۔“
کمردرد میں انسان کی کمر کے مختلف عضلات کمزور ہو جاتے ہیں کمر کے ساتھ ساتھ ٹانگوں اور گردن میں بھی درد شروع ہو جاتا ہے اور انسان سخت بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دفتر میں کام کرنے والے لوگ عام حالات میں کام کرنے والوں سے زیادہ سخت رو ٹےن میں کام کرتے ہیںکیونکہ ان کا سارا دن ایک جگہ بیٹھنے یا کھڑے ہو کر ےاسامان اٹھانے مےں گزر جاتا ہے اور اس بے احتیاطی میں انسان کمر درد کی تکلیف میں متلا ہو جاتا ہے۔ کرسی پر غلط انداز سے بیٹھنے ‘ الٹا سونے‘ بھاری چیز اٹھانے اور زیادہ دیر تک جھک کر کام کرنے سے تکلیف زیادہ تر جنم لیتی ہے۔ جب اس سلسلے میں آرتھو پیڈک ٹریٹمنٹ کے ادارے خان کعینٹیک ٹریٹمنٹ (کے کے ٹی) جو کمر درد کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کے لئے‘ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے سے رابطہ کیا گیا تو ڈائریکٹر ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر نعمان ذکریا نے بتایا کہ ”کمردرد کی کوئی ایک خاص وجہ نہیں‘ کبھی یہ ڈسک کی جگہ تبدیل ہونے‘ کبھی زیادہ دیر تک ایک ہی جگہ بیٹھنے ‘ بھاری سامان اٹھانے اور بعض اوقات یہ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی کمر کا ضرورت سے زیادہ ہی خیال رکھتے ہیں کےونکہ ان کو اس تکلیف کے لاحق ہونے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے کیونکہ وہ تو ورزش کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور جسمانی محنت ‘ جس کی وجہ سے تھوڑے سے کام کرنے سے وہ اس تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔کمر کی تکلیف آپ کے کام کرنے کے عمل کو بری طرح متاثر کرتی ہے کیونکہ قدرت نے ہماری کمر کی ہڈی اس طرح کی نہیں بنائی کہ ہم اس پر زوردیتے ہوئے کافی دیر تک کمپیوٹر کے سامنے یا کرسی پرگزار دیں۔“
جسمانی اور ذہنی دباﺅ کی وجہ سے گردن کو سہارا دینے والے پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور درد شروع ہو جاتا ہے۔ یہ درد کمر کے بالائی حصے سے ہوتا ہوا سرتک بھی پہنچ جاتا ہے۔ تھکاوٹ‘ سکرین پر چھوٹے الفاظ پڑھنے کی کوشش اور کام جلد کرنے کی ٹینشن ‘ یہ ساری چیزیں پٹھوں کودباﺅ میں لے آتی ہیں۔ اس دباﺅسے درد میں مزید شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بنک میں کام کرنے والے جبران علی سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”میری عمر 35 سال ہے اور میں پچھلے 5 سال سے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ کیونکہ میںسارا دن کمپیوٹر کے سامنے ایک ہی کرسی پر گزار دیتا ہوں جس کی وجہ سے میں جب بھی کوئی چیزاٹھانے لگوں تو پٹھوں میں کھنچاﺅ اور تکلیف محسوس کرتا ہوں اور کام میں بالکل دھیان نہیں دے پاتا۔“
کمر کے زیادہ تر درد کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ نہیں ہوتی بلکہ عموماً یہ درد اس وقت ہوتا ہے جب ان ٹشوز جن کا کام ریڑھ کو سہارا دینا ہوتا ہے ان پر دباﺅ پڑتاہے یا وہ کھنچ جاتے ہیں جن کا خیال انسان کے شعور میں نہیں ہوتا اور ذرا سی بے احتیاطی اس کو مرض میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اگر دفتر ہپستال‘ سکول‘ فیکٹری وغیرہ میں کام کرنے والے لوگ ذرا سی احتیاطی تدابیر اپنا لیں تو وہ اس تکلیف سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔ جیسا کہ روز کی ورزش ‘بھاری سامان اٹھاتے ہوئے احتیاط اور کرسی یا صوفے پر صحیح اندازسے بیٹھنا۔
اس سلسلہ میں کینڈین آرتھو پیڈک اور ری ہیبلیٹیشن سنٹر کی ڈاکٹر فوزیہ نے احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے کہا کہ ”کام کے دوران‘ ٹی وی دیکھتے ہوئے انسان کوچست بیٹھنا چاہئے‘ کبھی الٹا نہیں سونا چاہئے‘ ہمیشہ تکیہ لے کر سونا چاہئے اور کبھی بھی پیچھے کی طرف نہیں جھکنا چاہئے“ اس طرح ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی احتیاط سے انسان ان تکالیف سے بچ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭