جب بھی یہ بات ہونے لگتی ہے کہ اب ”صدر“ زرداری پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ وہ آ جاتے ہیں۔ نیب کی طرف سے اپنی پرائی کرپشن کے مقدمات کھلنے کے بعد آ گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ یہ وہ مقدمات ہیں جو صدر ہونے کے پہلے کے ہیں۔ لاڑکانہ اور گڑھی خدا بخش میں انہوں نے جو تقریر کی کمال کی۔ یہ تقریر انہوں نے بلاول زرداری اور فریال تالپور کی موجودگی میں کی۔ احتیاطاً قائم علی شاہ کو بھی بلا لیا تھا۔ سکیورٹی اور پروٹوکول بہت ضروری ہے۔
قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس نعرے کو اسی طرح وہ بھی استعمال کر رہے ہیں جس طرح نواز شریف کے ”مقربین“ استعمال کرتے ہیں۔ نواز شریف نے خود کہا کہ یہ نعرہ میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ مگر جب میں حکومت سے ہٹایا گیا اور میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی آدمی نہ تھا۔ وہی نعرے باز اور مفاد پرست آج بھی نواز شریف کے آس پاس ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو جنرل مشرف کے پاس چلے گئے تھے۔ وہ زرداری صاحب کے پاس ہوتے ہوئے نواز شریف کے پاس پہنچ چکے ہیں اور جو زرداری کے اپنے پاس تھے ان میں سے چند ایک نواز شریف نے اپنے پاس بلا لئے ہیں۔
نواز شریف ہمیشہ صدر زرداری کے ساتھ تھے تو وہ کیوں نہیں ہوں گے۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ میں اکیلا زرداری صاحب کے لئے دیوار بن جاﺅں گا۔ زرداری صاحب اب وزیراعظم نواز شریف کے لئے سایہ دیوار کی طرح ہیں مگر یہ آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی۔
گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو
یہ دیوار اب کسی دھکے کی منتظر نہیں ہے خود بخود گر پڑے گی۔ یہ تو خواہشوں کی ننگی زمین پر سونے والوں کی آخری خواہش ہو گی۔ ان بیچاروں کو اپنی پہلی خواہش یاد بھی نہیں ہے۔ صدر زرداری صاحب یہ تو سوچیں کہ ابھی تو نواز شریف نے کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں ہے۔ صدر زرداری نے کب اٹھایا تھا کسی بھی حکمران نے نہیں اٹھایا۔ یہ اعتراف خود زرداری صاحب نے کر لیا ہے ہم جو نہیں کر سکے تھے وہ نواز شریف کرکے دکھا دیں۔ یہ تو نواز شریف کے ساتھ ”مفاہمت“ نہیں ہے۔ نواز شریف کو کیا ضرورت ہے ایسا کام کرنے کی جو سچے حکمران کیا کرتے ہیں۔ وہ بھی وہی کر رہے ہیں جو پہلے حکمرانوں نے کیا تھا ان سے پہلے ”صدر“ زرداری تھے۔ دو دفعہ وہ خود تھے اور دو دفعہ بینظیر بھٹو تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے یعنی عام لوگوں کے لئے دونوں نے کچھ بھی نہ کیا۔ یہی مقابلہ ہمارے حکمرانوں کے درمیان چل رہا ہے۔ کبھی مفاہمت سے کبھی مزاحمت سے۔ خواہ وہ فوجی ہوں خواہ سیاسی ہوں۔
ہم بجلی اور پٹرول کی قیمتوں اور مہنگائی کے لئے روتے ہیں۔ اس ملک میں پانی بھی بکے گا۔ دولت مند پینے کا پانی بھی باہر سے منگواتے ہیں۔ یہ جو پاکستان میں پانی بکتا ہے۔ چھوٹے موٹے امیر لوگ خرید لیتے ہیں مگر اس میں بھی مہنگائی ہو گئی۔ آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کہتے ہیں کہ بھارت ہمیں ریگستان بنا رہا ہے۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے خون میں ڈوب جائیں۔ نواز شریف بھارت سے تجارت کرنا چاہتے ہیں اور دوستی؟ حضرت علیؓ نے فرمایا جس کا کوئی دشمن نہیں وہ کسی کا دوست نہیں۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق 2020ءمیں پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہو گا جہاں پانی کی شدید قلت ہو گی۔ ہماری سرزمین بھی پیاسی ہو گی تو بجلی کس پانی سے بنے گی۔ مہنگی نہیں ہو گی تو کیا ہو گا؟ تربیلا اور منگلا کے علاوہ پانی کا کوئی ذخیرہ نہیں بنایا گیا۔ کالاباغ ڈیم تربیلا اور منگلا سے بھی پہلے بنایا جانا تھا تو پھر جنرل ایوب نے کیوں نہ بنایا؟ کیا اس کی بھی وہی مجبوری تھی جو اس کے بعد فوجی اور سیاسی حکمرانوں کی تھی اور ہے۔ یہ ڈیم بھارت نے نہیں بننے دیا۔ اس میں سندھ کے غیر نمائندہ اور غیر مقبول لوگوں نے اور سرحد کے بھارت دوست سیاستدانوں نے رشوت لے کے پاکستان دشمنی کی۔ وہ ہمیشہ قومی اسمبلی میں رہے اور سرحد حکومت میں بھی رہے مگر سارے حکمران بھی اس کرپشن میں شامل ہیں۔ کوئی حکمران کالاباغ ڈیم بنانا چاہتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ چوں بھی کرتا۔ یہ کام نواز شریف کیوں کرتے۔ ”صدر“ زرداری نے بھی نہ کیا جنرل مشرف نے نہ کیا۔ پہلے اور دوسرے وقفہ اقتدار میں نواز شریف نے بینظیر بھٹو نے نہ کیا۔ ابھی چوتھا وقفہ اقتدار نے آنا ہے۔ جنرل ضیاءنے بھی نہ کیا۔ پاکستان کے سب حکمران کیا واقعی پاکستان کے حکمران تھے اور ہیں نواز شریف ”تھا اور ہیں“ دونوں میںآتے ہیں۔
جو کام ”صدر“ زرداری نے جان بوجھ کر نہ کیا وہ نواز شریف بھی جان بوجھ کر نہیں کریں گے۔ انہیں پتہ ہے کہ پاکستان پر بہت بڑی مصیبت آنے والی ہے جو ابھی آئی نہیں اس کی فکر کیسی؟ جو مصیبت آ چکی ہے وہ اس کے لئے بھی مجبور محض ہیں۔ دہشت گردی، قتل و غارت پچھلے پندرہ سال سے ہو رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی مگر انتخابات بھی ہوتے ہیں حکمران بھی آتے ہیں اور جاتے ہیں سب چل رہا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے ”جوگا“ پاکستان ہمیشہ رہے گا اسی طرح چلتا رہے گا۔
”صدر“ زرداری نے عید کے دن ذبح ہونے والے بکروں کی خوشی منائی۔ عید کے تیسرے دن سانحہ کارساز میں ذبح ہونے والوں کی برسی بھی منائی۔ بلاول کو بھیجا۔ قائم علی شاہ بھی تھے۔ جیالوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے شہید ہو کے بی بی کی جان بچائی۔ وہ ان لوگوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے جنہوں نے اپنی حکومت کے لئے بی بی کو شہید ہونے دیا۔ بلاول نے شیر کا شکار کرنے کا اعلان بھی کیا۔ قدم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کسی قتل عام کا کوئی قاتل نہیں پکڑا گیا۔ خود ”صدر“ زرداری کی ”محبوب اور محسن“ اہلیہ بینظیر بھٹو کے قاتل نہیں پکڑے گئے جبکہ زرداری صاحب کے بقول وہ انہیں جانتے ہیں۔ خدا کی قسم بی بی قتل نہ ہوتی تو زرداری صاحب ”صدر“ نہیں بن سکتے تھے۔ بلاول زرداری بھی ابا کے ساتھ ہیں اور انہیں امی یاد نہیں آتی ہے اور ان کے لئے میرے دل میں ایک گمشدہ نرم گوشہ بھی ہے۔ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے مگر ڈاکٹر قیوم سومرو اور رحمان ملک جیسے دوستوں نے انہیں اپنی راہ پر لگا لیا۔ جیل میں زرداری صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ لوگ ان سے بڑی توقعات رکھتے ہیں.... توقعات؟
”صدر“ زرداری نے پانچ برسوں میں ایک کام کیا ہے۔ اپنی حکومت کی مدت پوری کی تو نواز شریف کے لئے بھی ان کی یہی خواہش اور کوشش ہو گی کہ اس کے بعد پھر زرداری کی باری ہے۔ بیچارہ عمران خان کہتا رہے گا۔
میاں صاحب جان دیو۔ ساڈی واری آن دیو
(میاں صاحب جانے دو۔ ہماری باری آنے دو)
وہ یہ بھی بتائیں کہ اس بات کا کیا تعلق نواز شریف کے ساتھ ہے۔ کیا یہ بات نواز شریف کا ساتھ دینے والی ہے؟ اس بات میں پنہاں راز کیا ہے۔ یہ بات زرداری صاحب کو ایوان صدر سے نکلنے کے بعد یاد آئی ہے؟
”میں ملک کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا“