ستمبر کے اوائل میں ہفتہ بھر مسلسل بارشوں کی وجہ سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں تاریخ کا بدترین سیلاب اُمڈ آیا جس کے نتیجے میں بھاری جانی اور بے پناہ مالی نقصان ہوا جس کی تفصیلات کا مکمل احاطہ ابھی تک نہیں ہو سکا۔ ریاست کے چیف سیکرٹری اقبال کھانڈے کی طرف سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نقصانات کا کل تخمینہ اگر امریکن ڈالرز میں لگایا جائے تو اسکی کل مالیت 3 بلین 28 کروڑ 20 لاکھ ڈالر بنتی ہے اور اگر ہندوستانی روپیہ میں لگایا جائے تو اسکی کل مالیت 19 بلین 3 کروڑ 56 لاکھ روپے بنتی ہے ۔دو لاکھ سے زائد پکے مکانات تباہ ہوئے‘ تقریباً 75 ہزار کچے مکانات بھی صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ فصلوں کا 5611 کروڑ‘ میوہ جات کو 1568 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ کھانڈے کی مزید تفصیلات کیمطابق چھ لاکھ ایکٹر اراضی بُری طرح متاثر ہوئی اور چالیس ہزار لائیو سٹاک بھی سیلاب کی نذر ہو گیا۔ سیاحتی صنعت سے وابستہ رہائشی سہولتوں کو پانچ ہزار کروڑ سے زیادہ کا نقصان پہنچا۔ مواصلات کے حوالے سے بتایا گیا کہ 6 ہزار کلومیٹر سڑکیں اور تین ہزار واٹر سپلائی سکیمیں بھی متاثر ہوئیں، برقیات میں تین ہزار سب سٹیشنوں کو نقصان پہنچا جبکہ فلڈ کنٹرول کے چھ ہزار جاری کام متاثر ہوئے۔ سیلاب میں 281 افراد جاں بحق ہوئے جن میں 196 کا تعلق صوبہ جموں اور 85 کا وادی کشمیر سے تھا۔ کل 5642 دیہات متاثر ہوئے۔ چیف سیکرٹری کے مطابق یہ ابتدائی تفصیلات ہیں اصل نقصان اس سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ KCSDS کشمیر سنٹر فار سوشل اینڈ ڈویلپمنٹ سٹڈیز سروے کے مطابق نقصان اس سے کئی گنا زیادہ ہے جو سرکاری اعداد و شمار میں ظاہر کیا گیا ہے۔ انکے سروے کیمطابق چار لاکھ کاروباری مراکز تباہ ہو گئے ہیں ۔ سنٹر کے جائزے کیمطابق 15517 کلومیٹر روڈز میں سے 12553 کلومیٹر روڈ‘ تخمینہ دو ہزار کروڑ روپے انڈین انفرا سٹرکچر جو تباہ ہوا مالیتی چھ ہزار کروڑ روپے، صرف سرینگر شہر میں تجارتی نقصان ایک ہزار کروڑ روپے، ہوٹل اور ٹوارزم سہولتوں کا نقصان دو ہزار چھ سو تیس کروڑ روپے، بجلی و مواصلات تین ہزار کروڑ روپے۔ کل تخمینہ ایک لاکھ اکتیس ہزار چھ سو تیس کروڑ انڈین روپے کا نقصان ہوا۔ تاحال تفصیلات آ رہی ہیں مجموعی طور پر وادی کشمیر اور صوبہ جموں میں پچپن لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن کے مکانات ‘ کاروبار ‘ باغات اور زراعت تباہ ہو گیا ہے۔ سری نگر شہر اور دریائے جہلم کے گردو نواح میں بستیاں ابھی تک پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ نچلی سطح پر رابطے پوری طرح بحال نہیں ہو سکے۔ رابطوں کی مکمل بحالی کے بعد نقصانات کا حقیقی تخمینہ واضح ہو سکے گا۔ بہرحال اس قیامت صغریٰ کے موقع پر ایک طرف تو کٹھ پتلی ریاستی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی اور دوسری طرف دہلی سرکار نے پورا نظام فوج کے حوالے کر دیا جس نے اس موقع پر بھی انسانی ہمدردی کی بجائے کشمیریوں کو دشمن سمجھتے ہوئے ان سے ناروا سلوک کیا۔ سب سے پہلے ایسے موقع پر ریسکیو آپریشن ہوتا ہے جس میں فوج جیسا منظم اور باوسائل ادارہ ہی ہمیشہ کردار ادا کرتا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق بھارتی قابض افواج نے اس موقع پر بھی سخت امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا۔ ریسکیو آپریشن میں اس نے پہلے فوج اور پیرا ملٹری فورسز ‘ سیاحوں اور غیر مسلم آبادی کو ترجیح اول بنایا اور کچھ اگر نمائشی اقدامات کئے بھی تو انڈین میڈیا پر اس کی زبردست تشہیر کی گئی جیسے بھارتی فوجی کشمیریوں کے نجات دہندہ ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر نریندر مودی حکومت اور اسکی استعماری فوج نے پوری کوشش کی کہ کشمیری سیلاب میں ہی ڈوبے رہیں تا کہ انکے خلاف مزاحمت ختم ہو سکے لیکن داد دیجیے سخت جان کشمیریوں بالخصوص وہاں کے نوجوانوں کو کہ جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنی قوم کی جانیں بچائیں بلکہ اس حوالے سے بلا تخصیص غیر مسلم سیاحوں ‘ پنڈتوں حتیٰ کہ حکومتی کارندوں کو بھی ریسکیو کرنے میں دن رات ایک کر دیا۔ یہ مناظر بھی میڈیا میں آ چکے ہیں کہ پنڈت اور سکھ گھرانے مسجدوں کے اندر پناہ گزین ہیں اور آس پاس کی آبادی ان تک سامان خورد و نوش پہنچا رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آزمائش کے اس مرحلے پر نام نہاد دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت بے نقاب بھی ہوئی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ کرنے سے بھی نہ چوکی جبکہ کشمیری اخلاقی لحاظ سے بھی سرخرو ہوئے۔ بالخصوص کشمیری نوجوانوں اور طلبہ نے ریسکیو کے کام میں نئی نئی ایجادات کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ کشمیریوں کی نئی نسل ہر دم مجاہدانہ مزاحمت سے سرشار ہے اور مشکلات میں بھی ایک دوسرے کا سہارا بننا جانتی ہے۔ جب کوئی قوم غیر ملکی استعمار کیخلاف بر سرپیکار ہو تو اس کے اندر مصائب اور آزمائشوں کا سامنا کرنا مجموعی کلچر بن جاتا ہے۔