ہمارے ہاں جس ادارے یا محکمہ کے نام کے ساتھ نیشنل کا لفظ جڑا ہو، یوں سمجھئے اس کا کوئی ولی وارث نہیں۔ اور اگر ہے تو ہر شخص اس کا وارث ہے۔ ایسے جیسے شیرمادر نہ کوئی ڈسپلن، نہ کوئی قاعدہ قانون، ہر طرف آپا دھاپی ہی آپا دھاپی ایسے ہی کچھ مناظر، نیشنل سونگ سنٹرز میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں شاید یہ اس لئے کہ یہاں بھی ایک انار، سو بیمار والا معاملہ نظر آتا ہے ان کے چاہنے والے بہت ہیں، تو جبکہ ان سرکاری چشمہ ہائے فیض کی تعداد نسبتاً محدود ہے۔ ایسا ہی کچھ منظر ڈیفنس لاہور کے اکلوتے سنٹر میں ہمہ وقت نظر آتا ہے۔ جس کام دامن محدود ہے۔ تو کاروبار لا محدد۔ ہر وقت کسٹمرز کا ایک لا متناہی جمگھٹا موجود رہتا ہے اور وہ ایسے جیسے گڑ پر مکھیوں کی یلغار۔ یا یوں سمجھئے، بندے پر بندہ چڑھا ہوتا ہے۔
ہرکاونٹر پر اس قدر اژ دہام، کہ سائلین کی ملازمین تک رسائی کار دارد نظر آتی ہے، کسٹمرز کیلئے نہ خاطر خواہ بیٹھنے کی گنجائش نہ کھڑے ہونے کا کوئی کونہ، جہاں کسی کے سینگ سماسکیں، وہ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے، تو گویا یہاں ہر شخص ’’جائیں تو جائیں کہاں‘‘ کا عذر الاپتا سنایا جاتا ہے۔
اس سنٹر کی تنگی داماں کے علاوہ، یہاں عملے کی شدید کمی کا رونا بھی رویا جاتا ہے۔ اورایسا نظر بھی آتا ہے، گویا یہاں ورکر لوڈ کے مقابلے میں ملازمین کی تعداد بہت کم پائی جاتی ہے۔ تو اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ کہ یہ سنٹر اپنی استطاعت سے کئی گنا زیادہ کام کر رہا ہے۔ تو ایسے میں یہاں بے پناہ رش اور افرا تفری کی وجہ سے گونا گوں اذیتوں کا پیدا ہونا ناگزیر بن چکا ہے، تو اس پر دکھ کی بات یہ ہے کہ اس کے ان کسٹمرز میں اکثریت بوڑھے اور ریٹائرڈ ملازمین کی ہوتی ہے، جن میں ایک بڑی تعداد ایسی خواتین کی بھی ہوتی ہے۔ جو اس سرکاری چشمہ فیض سے فیض حاصل کرنے آتے ہیں۔ مگر اکثر خواری سے ہلکان ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔
کہنے کو تو یہ ادارہ ملک کے سرکاری اور غیر سرکاری بینکوں کی طرح کے کاروبار کا ایک بڑا قومی ادارہ ہے۔ جو ملک بھر میں اربوں روپوں کا کاروبار کرنے کے علاوہ فلاحی کام بھی کرتا ہے۔ کہ عوام کی بہبود کیلئے کئی منافع بخش سکیموں کا اجرا بھی کر رکھا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ادارے کو بینکوں کا سٹیٹس یعنی رتبہ نہیں دیا جاتا۔ کہ اس کے ملازمین بھی بنک ملازمین کی طرح دی گئی مراعات کے حقدار ہوسکیں۔ اور ان کی تنخواہیں بھی بینک ملازمین کی تنخواہوں کے مساوی ہوں۔
تو دوسری طرف ان کے کسٹمرز کو بھی وہی سہولیتں مہیا کی جاسکیں جو عام طور پر بینکوں میں دستیاب ہوتی ہیں۔ نہیں تو کم از کم، ضرورت کے مطابق ان سنٹرز کی تعداد میں ہی اس قدر اضافہ کردیا جائے،کہ وہ بطریق احسن اس کاروبار کو سنبھال سکیں۔ اور کسٹمرز بھی آرام سے ان سے استفادہ حاصل کرسکیں۔
اب لاہور ڈیفنس، سرمایہ اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے شہر کا امر ترین علاقہ ہے اور یہاں ہر طرح کی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں، جبکہ یہاں صرف ایک ہی نیشنل سیونگ سنٹر کام کر رہا ہے یہاں اگر ان کی تعداد میں اضافہ کردیا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ جہاں اس کاروبار میں گراں قدر اضافہ ہو جائے گا۔ وہاں کسٹمرز کو بھی، جب ان ازیتوں سے نجات مل جائے گی، موجودہ صورت میں انہیں درپیش ہیں۔ انکی تعداد میں بھی یقیناً اضافہ ہو جائے گا۔ اور یہ کاروبار بھی وسیع پھیلتا چلا جائے گا۔
اور ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ تو ہم گذارش کریں گے۔ کہ اس کے ارباب اختیار، کم از کم ڈیفنس کے اس پر ہجوم، اکلوتے مرکز کو ہی جو اب گاہکوں کیلئے ایک اذیت گاہ بنا ہوا ہے۔ کسی کھلی اور بڑی عمارت میں منتقل کردیں۔ جہاں آرام سے اس گلشن کا کاروبار چل سکے۔ہماری معلومات کے مطابق، یہ صورت حال صرف ڈیفنس کے سینٹر لاہور کی ہی نہیں تمام بڑے شہروں میں ان کا یہی حال ہے۔ تو یقیناً سرکار کیلئے بھی یہ گھاٹے کا کاروبار ہے کہ یہ ادارہ عوام کی ڈیمانڈ اور کاروباری امکانات کے مطابق کام نہیں کر رہا اور حکومت اس سے پورا استفادہ حاصل نہیں کر رہی یا کرنے سے قاصر ہے۔ تو کیا یہ اچھا ہو کہ اس ادارے کو بھی پرائیویٹائز کر دیا جائے اور پھر دیکھیں یہ کس قدر پھلتا اور پھولتا ہے۔ کہ بڑا کاروباری ادارہ حکومت کے چنگل سے نکل جائے، تو بخوبی پھلتا پھولتا ہے۔
نیشنل سیونگز سنٹر اور بیچارے کسٹمر
Oct 19, 2014