جاوید ہاشمی ہار گیا۔۔۔ میں نہیں مانتا!!!

Oct 19, 2014

احمد جمال نظامی

ایک باغی اور دلیر آدمی جاوید ہاشمی ملتان میں ضمنی الیکشن ہار گئے ہیں لیکن شاید وہ قومی اسمبلی میں جا کر استعفیٰ دیتے ہی جیت گئے تھے۔ جاوید ہاشمی نے اپنے کردار، جرات اور نظریات سے وطن عزیز کی سیاست میں جو مقام حاصل کیا ہے وہ شاید اس وقت وزیراعظم، عمران خان اور کسی دوسرے سیاست دان کے حصے میں نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے بھی جرات رند کا مظاہرہ یہ کہہ کر کر دیا ہے کہ کنٹینر نہیں ووٹ سے ہی تبدیلی آ سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو آج تک کوئی بھی نظریاتی اور بااصول سیاست دان اقتدار کی سیاست میں کامیاب نہیں رہ سکا اور آج جو لوگ اقتدار کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں ان کے بارے میں، ان کی اکثریت کے بارے میں ایسی ہی باتیں اور الزامات سامنے آتے ہیں وہ آمریت کی کوکھ سے سیاسی جنم لے کر اقتدار کی راہداریوں میں پھرنے کے قابل ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) پر جنرل ضیاء الحق کے سیاسی وارث ہونے کا الزام عائد ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کی سیاسی کوکھ سے جنم لینے کا طعنہ ہروقت پیپلزپارٹی کو دیا جاتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں حکمران جماعت جب اپوزیشن کی جماعت تھی تو پیپلزپارٹی کے دور میں ان پر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا کی حمایت کا الزام عائد کرتی تھی۔ طاہرالقادری پر آج بھی یہی الزامات عائد ہو رہے ہیں اور لندن پلان کا طعنہ بھی سیاست کی بازگشت میں خوب دیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا شاہ احمد نورانی، نوابزادہ نصراللہ علی خان اور بہت سارے دیگر قدآور سیاست دان اقتدار میں زیادہ دیر نہیں رہ سکے۔ یہ لوگ رکن اسمبلی کی حیثیت سے بھی زیادہ تاریخ رقم نہیں کر سکے مگر ان کے سیاسی قد کاٹھ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امیرشریعت عطاء اللہ شاہ بخاری نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ میری آدھی زندگی جیل اور آدھی ریل میں گزری مگر جب جلسے کے لئے آیا کرتا تھا تو لوگ کہا کرتے تھے ’’آ شاہ جی آ‘‘ اور جب پولیس گرفتار کرنے کے لئے آیا کرتی تھی تو یہی لوگ کہا کرتے تھے ’’جا شاہ جی جا‘‘۔ لہٰذا جاوید ہاشمی کی شکست کوئی نئی بات نہیں ہے، سیاست کے دریچوں میں نظریات اور اصول کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے۔ ہم عوام سیاسی پارٹی کے لیبل اور برادری ازم سے باہر نکل کر کبھی بھی ووٹ نہیں دے سکتے یہی ہماری تاریخ ہے اور یہی ہمارا المیہ بن چکا ہے۔
 14اگست 1947ء کو حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں ایک عظیم مملکت خداداد حاصل کر کے دے دی لیکن آج تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ آج بھی مختلف دھڑوں، انتشار اور تفرقات میں بھٹے ہوئے ہیں۔ جاوید ہاشمی اس وقت بھی سیاست کا ایک ایسا نام جس کے مقابلے میں عمران خان کی جماعت میں کوئی قدآور سیاسی شخصیت موجود نہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) حمید گل بارہا اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ شاہ محمود قریشی ان کی پیداوار ہیں اور سیاست میں انہیں یہی قوت سامنے لائی ہے۔ جاوید ہاشمی نے جس جراتمندانہ انداز میں دھرنا سیاست اور ان کے مستقبل کے ایجنڈوں کو بے نقاب کیا تھا، یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ ملتان کے حلقہ این اے 149میں ضمنی الیکشن جیت جاتے۔ وہ مقتدر قوتوں کی عمران خان کو حمایت کا الزام عائد کر چکے تھے، سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس کے بارے میں بھی انہو ںنے اپنے ریمارکس دیئے تھے۔
گویا ہماری سیاست میں اصول نظریات اور جرات ایک مرتبہ پھر ہار گئی مگر جاوید ہاشمی اس لئے بھی جیت گئے کہ وہ وطن عزیز کی تاریخ میں وہ واحد سیاست دان ہیں جو ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین کے آگے سوال کرنے، تشویش کا اظہار کرنے اور بات کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ تحریک استقلال ہو، مسلم لیگ(ن) ہو یا پھر تحریک انصاف ہو جاوید ہاشمی نے ہر جماعت کے سربراہ کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرات کی بات کی اور پھر اپنی اس جرات کا مظاہرہ بھی اس انداز میں کیا کہ اقتدار کی سیاست کو ٹھوکر مار کر نظریات کی سیاست کو ترجیح دیتے رہے اور اس مرتبہ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جاوید ہاشمی جب تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور ابھی تحریک انصاف کے اندر انٹرپارٹی انتخابات کے ذریعے اس کے صدر منتخب نہیں بھی ہوئے تھے تو انہوں نے تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد کراچی کے پہلے اس جلسے میں جس میں انہوں نے شرکت کی اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا تھا کہ یہ باغی اگر عمران خان بھی ٹریک سے ہٹا اور کوئی غلطی کی تو اس کے خلاف بغاوت کرے گا۔ جاوید ہاشمی نے ایسا ہی کر کے دکھایا اور عمران خان کی طرف سے پہلے ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے نعرے پر ناراض ہو کر ملتان چلے گئے جہاں سے انہیں نہ صرف منا کر واپس لایا گیا بلکہ عمران خان نے اپنے ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کے مطالبے کو بھی واپس لیا۔ اس کے بعد عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا اور لوگوں کو ترغیب دی کہ وہ ہنڈی کے ذریعے رقم کی ترسیل کریں جس پر جاوید ہاشمی بغاوت کر گیا اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تک کو نعرہ لگانا پڑا کہ ایک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی۔ جاوید ہاشمی کی ملتان میں شکست نہیں ہوئی مگر نظریات، جرات اور اصولوں کو عوام نے ایک مرتبہ پھر ٹھوکر مار کر ثابت کیا ہے کہ وہ ہوا کا رخ دیکھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتے لیکن ایک بات خوش آئند ہے کہ جاوید ہاشمی جتنے کم مارجن سے ضمنی الیکشن میں ہارے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ چلو زیادہ نہیں تو جتنے انہیں ووٹ ملے ہیں اتنے لوگ اس باغی کی نظریات جرات اور اصولوں کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ انہیں سلام بھی پیش کرتے ہیں۔
جاوید ہاشمی ہماری سیاست میں ایک باغی تھا اور ہے جسے تاریخ ہمیشہ سلام پیش کرتی رہے گی اور ملتان کے اس ضمنی الیکشن میں بھی تاریخ کا فیصلہ جاوید ہاشمی کے ہی حق میں ہو گا کیونکہ وہ جس جرات مندانہ اور بااصول انداز میں سیاسی سفر کر چکے ہیں ان کی فتح کا اعلان اور جھنڈا بہت پہلے گڑھ چکا ہے۔ ایک دلیر آدمی ’’ہاشمی ہاشمی‘‘۔ ضمنی الیکشن ہار کر بھی جیت گیا اور ہماری روایتی سیاست ہار گئی۔

مزیدخبریں