پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے چوکاب تحصیل مند میں ایرانی سرحدی محافظوں کی جانب سے فرنٹیئر کور کی گشتی پارٹی پر بلااشتعال فائرنگ کے نتیجہ مں گزشتہ روز ایک صوبیدار شہید اور تین اہلکار زخمی ہو گئے۔ ایرانی سکیورٹی فورسز نے بلاجواز جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاکستانی حدود میں واقع شکریاب گائوں پر بھی دھاوا بول دیا اور مکینوں کو ہراساں اور زدوکوب کیا۔ ایرانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایف سی کی گشتی پارٹی پر بلااشتعال فائرنگ و گولہ باری بڑے ہتھیاروں اور مارٹر گولوں سے کی گئی اور یہ سلسلہ چھ سے سات گھنٹے تک جاری رہا۔ فائرنگ سے ایف سی کی ڈبل کیبن گاڑی بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق مسلح ایرانی فورسز بین الاقوامی حدود اور پاکستان ایران بارڈر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھ گاڑیوں اور 30 گارڈز کے ساتھ پاکستانی حدود میں دو کلومیٹر اندر تک گھس آئیں۔ آئی جی ایف سی میجر جنرل محمد اعجاز شاہد نے ایران فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ آئندہ ایران کی جانب سے کسی بھی بلاجواز اور غیرقانونی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا جائیگا۔
دفتر خارجہ پاکستان نے ایران کی جانب سے دی گئی دھمکی کی مذمت کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ایران میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں دہشت گرد عناصر کے پاکستان سے جانے کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ ایران الزام تراشی کے بجائے دونوں ملکوں کے مابین طے شدہ طریقہ کا استفادہ کرے اور پاکستان ایران بارڈر کمیٹی میں یہ معاملہ لائے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اس سلسلہ میں اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ پورا خطہ دہشت گردی کا شکار ہے۔ سرحدیں محفوظ نہیں اس لئے دشت گردوں کو نقل و حمل میں آسانی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرزمین کو ایران سمیت کسی بھی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائیگا۔ دریں اثناء پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے ان سے ایرانی سکیورٹی فورسز کی پاکستان کے اندر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری پر سخت احتجاج کیا گیا۔
پاکستانی سرحدوں پر بھارت کی جانب سے پہلے ہی گزشتہ ایک ماہ سے تسلسل کے ساتھ بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھ کر سرحدی کشیدگی کو انتہا تک پہنچایا جا چکا ہے جس سے علاقائی امن و سلامتی کو بھی سخت خطرات لاحق ہو چکے ہیں جبکہ سرحدی کشیدگی کے اس ماحول میں بلوچستان میں پاکستان ایران سرحدوں کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ایرانی سکیورٹی فورسز نے بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرکے پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے حوالے سے حکومت اور عسکری قیادتوں کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ چونکہ ایران کے ساتھ ہمارے برادرانہ خیرسگالی کے مراسم بھی استوار ہیں اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون و تعلقات کے ایک نئے سلسلے کی بنیاد بھی رکھی جا چکی ہے اس لئے پاکستان موجودہ فضا میں ایران کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا مگر اس صورتحال کو پاکستان کی کسی کمزوری سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے جبکہ بادی النظر میں ایرانی سکیورٹی فورسز نے پاکستان کے اندر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ مسلسل سات گھنٹے تک جاری رکھ کر اقوام عالم میں پاکستان کے دفاعی لحاظ سے کمزور ہونے کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس پر پاکستان کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ ایران کو اپنے دفاع کی مضبوطی کا احساس دلائے‘ اسی تناظر میں گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ نے بھی ایرانی سکیورٹی فورسز کی جارحیت کا سخت نوٹس لیا ہے۔ ایرانی سفیر کو بھی دفتر خارجہ میں طلب کرکے انہیں پاکستان کا احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ہے اور آئی جی ایف سی نے بھی دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ آئندہ ایرانی سکیورٹی فورسز کی ایسی کسی بھی جارحیت کا بھرپور انداز میں جواب دیا جائیگا۔
اس حقیقت کا یقیناً ایران کو بھی احساس ہو گا کہ پاکستان دہشت گردی کا خود زخم خوردہ ہے اور اس خطے کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کیلئے ہی اس نے دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا جس کی پاداش میں اندرونی اور بیرونی دہشت گردوں نے گزشتہ 12 سال کے دوران اپنی مذموم تخریبی کارروائیوں اور خودکش حملوں کے ذریعے پاکستان کی معیشت کا انجرپنجر ہلا دیا ہے جبکہ سب سے زیادہ جانی نقصان بھی پاکستان کا ہوا ہے۔ اس پس منظر میں دہشت گردوں کو نکیل ڈالنا پاکستان کی اپنی بھی ضرورت ہے جس کیلئے پاکستان کی سکیورٹی فورسز جانی اور مالی قربانیاں دیتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اپریشن کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسکے باوجود پاکستان کے کردار پر عدم اطمینان یا کسی شک و شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ پہلے امریکہ اور بھارت کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا اور بھارت نے اسی تناظر میں کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان کے اندر بلااشتعال جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ اب برادر مسلم ملک ایران کی جانب سے بھی پاکستان کے ساتھ مجاز فورم پر معاملہ اٹھانے کے بجائے یکطرفہ جارحیت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے جو دوطرفہ تعلقات ہی نہیں‘ بقائے باہمی کے آفاقی اصولوں کے بھی منافی ہے۔ پاکستانی سرحد کے قریب ایران کے اندر اگر دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں تو پاکستان بھی ایرانی سرحد کے پاس دہشت گردی کی ایسی مذموم کارروائیوں کی زد میں ہے۔ اس طرح دہشت گردی کے ناسور کا دکھ پاکستان اور ایران کا مشترکہ دکھ ہے جس کے تدارک کیلئے دونوں ممالک کو باہمی تعاون‘ حکمت عملی اور افہام و تفہیم سے کوئی مشترکہ پالیسی طے کرنی چاہیے۔ اسی تناظر میں پاکستان کی جانب سے اب بھی ایران کو باور کرایا گیا ہے کہ اسے دونوں ممالک کے مابین طے شدہ طریقہ کار سے استفادہ کرنا اور دہشت گردی کے کسی معاملہ کو پاکستان ایران بارڈر کمیٹی میں لانا چاہیے تاکہ کسی یکطرفہ کارروائی کے باعث دونوں ممالک کے مابین کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو سکے۔ یقیناً سرحدوں کے تحفظ کے معاملہ میں پاکستان کے بھی ایران کے ساتھ کچھ نہ کچھ تحفظات ہونگے اس لئے باہمی رابطوں اور افہام و تفہیم سے ہی ہر غلط فہمی اور تحفظات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایران اپنے تئیں پاکستان کے ساتھ تحفظات رکھ کر اسکے ازالہ کیلئے جارحیت کے راستے کا انتخاب کریگا تو پھر پاکستان کے پاس بھی اپنی سرحدوں کے دفاع کیلئے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گا جس کا آئی جی ایف سی نے عندیہ بھی دے دیا ہے اس لئے برادر مسلم پڑوسی ملک ایران کو اب تک کے باہمی خوشگوار مراسم اور متعدد شعبوں میں باہمی تعاون کے جاری معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کسی غلط فہمی کے افہام و تفہیم سے ازالہ کے بجائے یکطرفہ طور پر جارحیت کا راستہ اختیار کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ ایسی یکطرفہ کارروائیاں ہی سرحدی کشیدگی کو بڑھانے اور دوطرفہ منافرت کی فضا کو پروان چڑھانے پر منتج ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ خطہ پہلے ہی پاکستان چین تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کیلئے عالمی سازشوں کی زد میں ہے جن کے توڑ کیلئے بالخصوص پاکستان اور ایران کو یکجہتی اور یگانگت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اگر اسکے بجائے دونوں برادر مسلم ممالک ہی ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار بند ہو جائینگے تو اس سے علاقائی سلامتی کیخلاف سازشوں میں مصروف عالمی طاقتوں کو ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع حاصل ہو جائیگا۔ اگر آج بھارت برتری کے زعم میں پاکستان کی سالمیت کیخلاف اوچھا وار کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے تو اس کو پاکستان کی کمزوری سے تعبیر کرکے خطے کے کسی دوسرے ملک کو بھی اپنے مفادات کے حوالے سے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی نے پہلے ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق کر رکھے ہیں‘ اگر اس فضا میں ایران بھی پاکستان کیخلاف یکطرفہ جارحیت کے ارتکاب کی پالیسی پر عمل کریگا تو پھر اس خطے کو تباہی سے بچانا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ پاکستان کے پاس اپنی بقاء و سلامتی کے تحفظ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہے گا اس لئے ایرانی قیادت کو معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے کام لینا چاہیے اور سرحدی کشیدگی بڑھانے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔ برادر پڑوسی مسلم ممالک کا ایک دوسرے کیخلاف ہتھیار بند ہونا ان قوتوں کیلئے سکون و راحت کا پیغام ہو گا جو مسلم امہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے پہلے ہی سرگرم عمل ہیں۔