کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایاز صادق ارائیں فیملی سے ہیں اگر یہ درست ہے تو لاہور میں ارائیں اور کشمیریوں کی اکثریت ہے اگردو برادریاں آپس میں مل جائیں تو شکست مخالف کا ہی مقدر بنے گی۔
مسلم لیگ (ن) تین میں سے دو سیٹیں اوکاڑہ کی لاہور صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار گئی لیکن یہ دونوں سیٹیں جو ہاری گئیں وہ شہباز شریف کی معاونت سے ہرائی گئیں، اوکاڑہ میں میاں نواز شریف نے ٹکٹ شہباز شریف کے مطابق نہ دی اس لئے ٹکٹ ہولڈر نے شکست کھائی، نواز شریف کو بتانے کیلئے شہباز شریف کی مرضی کو مقبولیت ہے، لاہور میں صوبائی سیٹ اس لئے ہرائی گئی کیونکہ اس میں بیگم کلثوم نواز کا رشتہ دار الیکشن لڑ رہا تھا، اس وقت میاں نواز شریف کی جانشینی کی بھی محلاتی سازش ہو رہی ہے۔ آیا مریم نواز میاں نواز شریف کی جانشین ہو گی یا شہباز شریف مرکز میں اور حمزہ شہباز پنجاب میں (ن) لیگ کے لیڈر بن کروزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے۔ اندرونی خلفشار ہمیشہ تباہی کا باعث ہوتا ہے اس لئے میاں نواز شریف کو ابھی سے جانشینی کا فیصلہ سنا دینا چاہیے تاکہ اندرونی خلفشار کی وجہ سے ان کے مخالف فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ عمران خان ماڈرن لیڈر بننے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ان کے لئے یہ سبق نکلا ہے کہ پارٹی الیکشن نے انہیں نقصان دیا اور ان کی پارٹی میں اندرونی پارٹی بازی ان کی پارٹی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ پارٹی الیکشن ہو جانے کے بعد کوئی پارٹی بھی اصولی پوزیشن نہیں لے رہی۔ اوکاڑہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتنے والے شخص نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1000 روپے رکشہ کا کرایہ اور 500 روپے کرایہ ووٹرز کے آنے جانے کیلئے خرچ کیا جو الیکشن کے دوران سینکڑوں رکشہ جو کرایہ پر تھے دکھائے گئے تھے لیکن جب وہ شخص الیکشن جیت گیا ہے تو میاں نواز شریف نے بھی اسے مبارکباد دی اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دی اور عمران خان نے اس جیتنے والے شخص کو نہ صرف مبارک دی بلکہ پی ٹی آئی میں شمولیت کیلئے بھی کہا حالانکہ میاں نواز شریف کے فیصلہ کے خلاف بغاوت کر کے وہ آزاد امیدوار کھڑا ہوا اور الیکشن میں بے ضابطگیاں کر کے کامیاب ہوا۔ نہ عمران خان نے اور نہ ہی میاں نواز شریف اپنے بھگوڑے کو قبول نہ کرنے کی کوشش کی۔ پی پی پی نے اشرف سوہنا کی مخالفت کی اور پی ٹی آئی پرانے ورکر نے بھی اس کی مخالفت کی کیونکہ جیتنے والے اوکاڑہ کے امیدوار نے الیکشن تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑا لیکن پی ٹی آئی کے ورکر کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ووٹ اس کو دے کر جتایا۔ اشرف سوہنا کو لوٹا ہونے کی پی پی پی کے ورکر نے بھی سزا دی اور پی ٹی آئی کے ورکر نے بھی اسے ووٹ نہیں دیئے۔ اصولی بات تو یہ تھی کہ میاں نواز شریف (ن) لیگ کے بھگوڑے کو لفٹ نہ دیتے اور اسے دوبارہ شمولیت کی دعوت نہ دیتے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے سلسلہ میں الیکشن کمشنر کی توجہ مبذول کرا کر اسے Disqualify کراتے اس طرح عمران خان بھی اگر Merit اور اصول کی بات کرتے ہیں تو ان کو بھی اسے پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت نہ دیتے بلکہ الیکشن کمیشن کو اس کے خلاف ضابطہ اخلاق کی پاسداری نہ کرنے کی سزا دلوا کر Disqualify کرواتے لیکن اس حمام میں سب ننگے ہیں کسی اصول یا Merit کی بات نہیں۔ مسلم لیگ ن اوکاڑہ میں اور لاہور میں ایک ایک سیٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی ہار چکی ہے اور سردار ایاز صادق کی سیٹ پر بھی معمولی اکثریت سے جیتی ہے جس پر کئی اعتراضات ہیں، یہ میاں نواز شریف کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
لوگ میٹرو بس یا سڑکوں کو پسند نہیں کرتے لوگوں کو فیکٹریاں چلانے کے لئے بجلی چاہیے۔ سبزیاں مہنگی ترین ہوتی جا رہی ہیں، بے روزگاری حد سے بڑھتی جا رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ وبال جان بنی ہوئی ہے اور بجلی کے بل بڑھا چڑھا کر دیئے جا رہے ہیں لوگوں کا آمدنی میں گزارا ناممکن ہو گیا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان نوکریاں نہ ہونے کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں۔ شہباز شریف میٹرو بس اور موٹرویز کو سراہتے پھر رہے ہیں لیکن اگر پیٹ میں روٹی نہ ہو بے روزگاری انتہا کی حدیں چھو رہی ہو تو شہباز شریف کی میٹرو بس اور موٹروے کس کام کے۔ حمزہ شہباز نے مرغی، انڈے کا کاروبار کر کے مرغیوں، انڈوں کی قیمتیں آسمان کی بلندی تک پہنچا دی ہیں لیکن اخباروں اور ٹی وی پر ان کا کنٹرول ہے کوئی ذکر نہیں کرتا۔ تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کی جانشینی کا شوق بھی آپس میں دراڑیں ڈال کر شکست کا باعث ہو سکتا ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے باری باری حکومت میں رہنے سے لوگ تنگ آچکے ہیں اور تبدیلی مانگتے ہیں ان کو اس ارادے سے باز رکھنے کیلئے ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے لوڈشیڈنگ کم سے کم کی جائے فیکٹریوں کو بجلی اور سوئی گیس مہیا کی جائے تاکہ لوگوں کو ملازمتیں بھی مل سکیں اور بے روزگاری ختم ہو سکے، پیداوار میں اضافہ ہوتاکہ برآمد بڑھا کر بیرونی سرمایہ کمایا جائے اور قرضوں پر انحصار کم کیا جائے۔ اب مسلم لیگ (ن) میں اندرونی جنگِ جانشینی کے علاوہ کشمیری بمقابلہ نان کشمیری بھی شروع ہو چکا ہے۔ خواجہ آصف کیخلاف چودھری نثار اور احسن اقبال بھی پھوٹ پڑے ہیں لوگ سوال کرتے ہیں سیالکوٹ سے منسٹر خواجہ آصف کشمیری گوجرانوالہ سے دستگیر کے بیٹے کشمیری منسٹر ہیں۔ لاہور سے سعد رفیق منسٹر کشمیری ہیں فیصل آباد سے عابد شیر علی کشمیری ہیں کشمیری قوم پاکستان میں حکومت کی حقدار ضرور ہے لیکن کشمیریوں کے علاوہ بھی تو دوسری قومیں بستی ہیں کچن کیبنٹ کے ممبر کشمیری فنانس منسٹر اسحاق ڈار کشمیری فنانس، ریلوے، پانی، بجلی، ڈیفنس کے منسٹر کشمیری ہیں، باقی مرکز کے باہر کتنے محکمہ رہ جاتے ہیں۔ خدا کیلئے لوگوں کے اعتراضات پر غور کریں اور جو جائز شکایات ہیں ان کا ازالہ کریں۔ ورنہ اندرونی پارٹی کی سازشیں اور فیملی جانشینی کی سازشیں تباہی اور شکست کا باعث ہوں گی، نہ عمران خان کے میرٹ کی بات کوئی سنتا ہے نہ پرانے سیاستدانوں کا متمنی ہے۔ لوگ روٹی، کپڑا، مکان، بجلی کے کم بل اور مہنگائی کم ہونے کے منتظر ہیں، بے روزگاری کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میٹرو بس اور ہائی وے روڈز سے لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے۔ اگر 2018ء کا الیکشن جیتنا ہے تو ان معروضات پر غور کر کے تدارک کا بندوبست کریں۔
زہرہ نگاہ کا ایک شعر آخر میں ملاحظہ فرمائیں ۔
’’کہاں کا عشق و محبت کہاں کا ہجر وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کیلئے‘‘
……(ختم شد)…
’’محلاتی سازشیں‘‘
Oct 19, 2015