جس سال مشرقی پنجاب میں اُس کا جنم ہوا، یہ ٹھیک وہی سال تھا، جب ”گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ئ“ منظور کیا گیا، اُس نے تاریخ میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروس کا امتحان دیا اور 1963ءمیں بھارتی وزارت خارجہ سے منسلک ہو گیا۔ کامل تیس سال تک وزارت خارجہ میں خدمات سرانجام دینے کے بعد 1993ءمیں وہ وزارت خارجہ میں ”ہسٹاریکل ڈویژن “کے سربراہ کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوا اور پاکستان‘ چین‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور سری لنکا کے ساتھ خارجہ تعلقات پر تحقیقی کام میں جت گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ میں مختلف حیثیتوں میں کام کرتے ہوئے اُسے امور خارجہ و داخلہ سے متعلق کئی اہم تاریخی دستاویزات دیکھنے کا موقع ملا، تاریخ سے شغف کی بنا پر اُسے جو اہم دستاویز نظر آتی‘ وہ اس کے نوٹس یا اہم نکات نوٹ کر لیتاتھا۔ نومبر2012ءمیں اِنہی نوٹسز اور نکات پر مبنی دس جلدوں اور دس ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اُس کا ضخیم تحقیقی کارنامہ ”پاک‘ بھارت تعلقات: 1947ءتا 2007ء“ کی شکل میں شائع ہوکر سامنے آیا تو ہر طرف تہلکہ مچ گیا۔ اِس کتاب میں پہلی بار اُس خط و کتابت کے نکات بھی سامنے آئے جو 1947ءمیں مہاراجہ کشمیر اور گورنر جنرل بھارت‘ لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے درمیان ہوئی تھی۔ اِس کتاب سے پہلی مرتبہ آشکار ہوا کہ بھارت کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق غیر مشروط نہیں تھا، بلکہ اس میں ریاست میں عوامی ریفرنڈم یا رائے شماری کرانے کی شرط شامل تھی تاکہ کشمیری عوام اس الحاق کو منظور یا مسترد کر سکیں۔ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار ددینے والے بھارتی حکمرانوں کی عیاری و مکاری کا پردہ چاک کرنے والا یہ سرکاری افسر کوئی اور نہیں بلکہ بھارت کا اپنا ممتاز سفارتکار اوتار سنگھ بھاسن ہے۔
کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکمران طبقے کا ہمیشہ سے استدلال رہا ہے کہ 1947ءمیں ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ ”غیر مشروط“ الحاق ہوا تھا، یعنی اس کے ساتھ کسی قسم کی شرط شامل نہیں تھی۔ اسی دعویٰ کی بنا پر بھارتی حکومتیں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتی رہیں اور ا س سلسلے میں عالمی برادری کو بھی گمراہ کیا جاتا رہا کہ ریاست کشمیر کسی رکاوٹ کے بغیر بھارت کا حصہ بن چکی ہے، لیکن اوتار سنگھ بھاسن نے حقائق سامنے لاکر ثابت کردیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق مشروط تھا۔ بھاسن کے اِس استدلال کی گواہی 1947ءمیں مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے مابین ہونے والی خط وکتابت سے بھی ملتی ہے، اس خط و کتابت کی اصل دستاویزات نئی دہلی میں واقع سرکاری ادارے ”نیشنل آرکائیوز آف انڈیا“ کی عمارت میں محفوظ ہیں، لیکن بھارت کے خوف کا یہ عالم ہے کہ اِن دستاویزات کو انتہائی خفیہ اور کڑی نگرانی میں رکھا جاتا ہے اور صرف اعلیٰ بھارتی سرکاری افسران اور قومی رہنماءہی اِن دستاویزات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ایک اوتار سنگھ بھاسن کی کتاب ہی کیا، دیگر شواہد بھی اس حوالے سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر برطانوی پارلیمنٹ نے 18 جولائی 1947ءکو ”آزادی ہند ایکٹ“ منظور کیا، جس کے ذریعے پاکستان اور بھارت کی نوزائیدہ مملکتوں کے گورنر جنرلوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ 1935ءکے ”قانونِ ہند“ کو اپنا اپنا آئین تیار کرنے تک عارضی طور پر اپنا سکیں۔ یوں بھارتی حکومت نے جو قانون ہند 1935ءاختیار کیا،اُس کی دفعہ (1)6میں وہ طریقہ کار شامل تھا جس کے ذریعے ایک ہندوستانی ریاست بھارت کا حصہ ہو سکتی تھی۔ اس دفعہ کے مطابق (اول) ایک متحدہ ہندوستانی ریاست کا حکمران اگر بھارتی حکومت کو ”الحاق کا راضی نامہ“ پیش کرے اور گورنر جنرل اُسے منظور کر لے، تو ریاست بھارت میں شامل ہو جائے گی، (دوم) الحاق کے راضی نامہ میں ان تمام امور کا تذکرہ ہو گا جن کے ذریعے بھارت کی پارلیمنٹ ریاست کے لیے قوانین تشکیل دے گی اور یہ بھی طے ہو گا کہ ریاست میں وفاقی حکومت کا عمل دخل کہاں تک رہے گا؟ (سوم) اس دفعہ کے تحت جب گورنر جنرل الحاق کا راضی نامہ اور اس سے وابستہ دیگر دستاویز منظور کرلے گا، تو راضی نامہ و متعلقہ دستاویز کی نقول اور گورنر جنرل کی منظوری کی دستاویزی نقل تمام ارکان پارلیمنٹ کو دی جائیں گی تاکہ وہ ہر لفظ پر غور وفکر کر سکیں، (چہارم) تمام عدالتوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس دستاویز کا قانون کی روشنی میں جائزہ لے سکیں۔اس قانون سے ثابت ہوتا ہے کہ قانون ہند 1935کی رو سے کوئی بھی ”الحاق کا راضی نامہ“ چار شرائط پر پورا اتر کر ہی قابل قبول بنتا ہے۔ اول الحاق نامے کی دستاویز پر ریاستی حکمران کے دستخط، دوم ازروئے قانون حکمران کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہو‘ سوم گورنر جنرل الحاق نامے کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے اور چہارم الحاق نامہ اور گورنر جنرل کا تسلیم نامہ۔نیز دونوں دستاویز ات ارکان پارلیمنٹ اور عدلیہ کے سامنے رکھی جائیں تاکہ ان پر غور وفکر اور مباحثہ ہو سکے۔ الحاق نام کے قوانین 1935ءمیں قانون ہند تیار کرتے وقت تشکیل دیئے گئے تاکہ جو ریاستی حکمران اپنی ریاست کو برطانوی ہند کی وفاقی حکومت میں مدغم کرنا چاہیں ،وہ اُن قوانین کے مطابق عمل کر سکیں لیکن افسوسناک اور تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھارتی حکومت نے الحاق نامے کے قوانین پر عمل کرنے کی بجائے طاقت کے زعم میں تمام اخلاقی و قانونی اقدار پامال کر ڈالیں، لیکن جیسے ہر جھوٹ ایک دن عیاں ہوکر رہتا ہے، بالکل ویسے ہی بھارت کے اس جھوٹ کا پردہ کسی اور نے چاک نہیں کیا بلکہ یہ کارنامہ مقبوضہ کشمیر کی ہائیکورٹ نے ایک حالیہ اور تاریخی فیصلے میں بھی کیا ہے۔ جموں وکشمیر ہائیکورٹ کے جسٹس حسنین مسعودی اورجسٹس راج کوتوال پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ چونکہ جموں وکشمیرکی آئین ساز اسمبلی نے 1957ءمیں تحلیل ہونے سے قبل دفعہ 370 میں ترمیم یااسے منسوخ کرنے کی سفارش نہیں کی تھی، لہٰذا اِس دفعہ نے آئین میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیا ہے اور اب اِس میں کوئی ترمیم کی جاسکتی ہے اورنہ ہی اِسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔فیصلے میں کہاگیاہے کہ دیگر خود مختار ریاستوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے لیکن جموں و کشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کے وقت اپنی محدود خودمختاری برقرار رکھی تھی۔
قارئین کرام! بالفرض اگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا سودا کرلیا تھا تو اس ”سودے“ کی قانونی و آئینی حیثیت بھی مشکوک ہوچکی ہے، بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی عدالت کے سنہری حروف میں لکھے جانے والے فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی پوزیشن حاصل ہے اور یہ کہ کشمیر کسی صورت بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ بھارت کے ایک ”کتابی کیڑے“ اوتار سنگھ بھاسن نے اپنی تحقیق سے ثابت کردیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، اب پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر بھارت سرکار سڑسٹھ برس پہلے مہاراجہ ہری سنگھ اورگورنر جنرل لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے درمیان کشمیر پر ہونے والی خط و کتابت کی اُس دستاویزتک رسائی دے جو ”نیشنل آرکائیوز آف انڈیا“ کی عمارت میں سو پردوں اور ہزار پہروں میں چھپاکر رکھی گئی تو کشمیر پر بھارت کا سارا دعویٰ ہی ریت کی دیوار ثابت ہوسکتا ہے۔ بھارت اگر خود اس کی اجازت نہیں دے گا تو یقینا ایک دن اوتار سنگھ بھاسن جیسا کوئی دوسرا تاریخ کا کیڑا سارا سچ نکال لائے گا!