اگر کشمیر کی مائوں بہنوں بیٹیوں کے آنسئوں میں طاقت ہوتی تو ہمالیہ کا جگرپگھل جاتا اور ہندوستان تو کیا ساری دنیا کسی طوفان نوح میں غرق ہوجاتی لیکن جب آنسو گونگے ہو جائیں اور مادر وطن کی آغوش کو سینچنے والی خون کی پھوار کے رنگ کو بے نام کر دیا جائے اور دنیا بھر کے تماش بین بھیڑیوں کی چیڑپھاڑ پر تالیاں بجانے لگیں تو پھر ضرور کچھ نہ کچھ ہو کر رہتا ہے۔کیونکہ عالم اسباب کے حساب کتاب اکثر عالم موجودات میں بگڑ جاتے ہیں ۔یہ عہد فراعین سے بھی زیادہ سفاک اور عیار طاقتوں کا عہد ہے جس نے امت مسلمہ کو عملاً روئے زمین پر انسانوں کے گروہ سے نکال کر خونخوار درندوں، کووّں ، چیلوں اور گدہوں کے آگے پھینگ دیا ہے۔یہی وہ وقت ہے جب زمین و آسمان کے درمیان حائل تمام پردے اٹھ جاتے ہیں اور آزمائش کی بھٹی میں کندن بننے والے گروہ سمندر میں راستہ پالیتے ہیں ۔ یہ END OF THE HISTORY نہیں ہے۔تمام الہامی کتابیں اور قرآن مجید گواہ ہے کئی عظیم الشان سلطنتوں اور تہذیبوں نے عروج کے آسمان کو چھو لیا لیکن پھر اپنے ظلم اور کرتوتوں کی وجہ سے فنا ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔دنیا کو جان لینا چائیے کہ ایشیا ء کی تین ایٹمی طاقتوں میں پھنسا ہوا لہو لہو کشمیر پوری انسانیت کے مستقبل کے لئے ایک سلگتا ہوا سوال ہے جس کے جواب میں جس قدر تاخیر ہو گی۔کرّہ ء ارض پر انسان کی زندگی اتنی ہی گھٹتی جائے گی ۔نریندر مودی سانحہ گجرات کے پانچ ہزار مسلمان شہداء کے خونین تجربہ سے حوصلہ اور ترقی پا کر پورے عالم اسلام کو زیر نگین کر کے اجیت کمار کی شدت آرزو کے ہم ر کاب ہو کر خانہ کعبہ میں 360 بتوں کو بحال کر کے اکھنڈ بھارت کے پاکھنڈ پر عمل درآمد کے احمقانہ خواب دیکھ رہے ہیں جس کی ڈرائوئی تعبیر کی پہلی قسط میں کشمیر انشاء اللہ ان کے ہاتھ سے کھسک رہاہے۔ ایسا نہ ہو کہ کشمیر کے اٹوٹ انگ کی رٹ بھارت کا انگ انگ الگ کر دے اور حالات کی سنگینی اور نفرت اور جنگ کا الائو بھڑ کا نے کے انجام میں آنے والی معذور نسلیں لال قلعہ دہلی کے کھنڈرات پر بیٹھ کر آپ کی نادانیوں ،ہٹ دھرمیوں اور ہوس رانیوں کی بوئی ہوئی قیامت کا ماتم کریںاور مستقبل کا مئورخ کو رئوں پانڈئوں کی آپس کی طویل جنگ کی تباہ کاریوں کی زمین پر اس خطے کی عبرتناک تاریخ کے نوحے لکھے۔کشمیر کے چرب دست و تردماغ لوگ 1931 سے آج تک عزم راسخ اور صبر آزما استقلال کے ساتھ نسل در نسل ایک مربوط اور آہنی تسلسل میں اپنی قومی آزادی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جق ِخودارادیت کے حصول کے لیے بے جگری سے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ شہادتوں کی ایک عظیم کہکشاں ہے جو ریاست جموں و کشمیر کے گلی کوچوں میں جگمگا رہی ہے۔تحریک آزادی کشمیر کو تازہ جلاء برہان وانی کی خوبصورت شہادت نے دی جس کے مقدس سفر کا آغاز اس کے اپنے پیارے بھائی خالد مظفر وانی کی شہادت سے ہوا تھا۔ برہان وانی نوجواں نسل کا ہیرو تھا۔ اس نے اپنی پرامن تحریک کا آغاز سوشل میڈیا سے کیا اور آزادی وطن کے لیے نوجوانوں کو متحد اور منظم کر دیا۔بھارتی فوج نے اس سترہ سالہ نوجواں کی تلاش میں اس کے گھر کا فرش اور دیواریں تک کھر چ ڈالیںلیکن وہ جنگل میں گھومتا ہوا نوجوانوں کا لہو گرماتا رہا اور بالآخر غاصبوں کے ہاتھوں اپنے مقصد عظیم پر قربان ہو گیا۔ لیکن برہان وانی راہ حق کا پہلا مسافر نہیں تھا۔ بھارت کی سات لاکھ فوج نے کشمیر میں ایسا نفرت انگیز ماحول بنا دیا ہے کہ جانوں کی قربانیوں کا سلسلہ قسط وار جاری ہے کشمیر کے حالات کسی کی انگیخت یا پشت پناہی کی وجہ سے خراب نہیں ہوئے بلکہ تاریخ کا فطری تسلسل ہے جو اپنی منزل کی طرف بڑھ رہاہے۔1998 میں میرے کزن کا بیٹا ندیم خطیب جو امریکہ کی ریاست ورجینیا میں کمرشل پائلٹ تھا اور اپنی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کے علاوہ جاذب نظر خوبصورت شخصیت کی وجہ سے امریکیوں میں بے حد مقبول تھا چھٹی پر اپنے گھر سرینگر آیا ہو اتھا۔واپسی میں چند دن باقی تھے کہ ماں کے کہنے پر بڑے بھائی وسیم کے بچوں کو سکول کے لیے بس سٹاپ تک چھوڑنے گیا۔ وہ بچوں کے ہمراہ بس سٹاپ پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک بھارتی فوجی نمودار ہوا اور اس کے سینے پر سنگین رکھ کر کہا ـــ"ارے یہاں کیوں کھڑے ہو۔ ہٹو یہاں سے"ندیم نے جگہ بدل لی۔ وہ گہری سوچ مین گم تھا کہ دوسرا فوجی آیا اور چنگھاڑتے ہوئے کہنے لگا تم دیکھ نہیں رہے ہم یہاں گشت پر ہیں تم اس طرح گھور کیوں رہے ہو۔سڑک چھوڑ کر اس کونے میں کھڑے ہو جائو اور ان بلونگڑوں کو بھی لے جائو یہاں سے " اتنے میں سکول کی بس آ گئی ۔ ندیم نے بچوں کو بس میں چڑھا یا اور پھر آستینیں چڑھا کر دونوں فوجیوں کو دبوچ لیا اور چیخنے لگا ــ" بھارتی کتو نکل جائو کشمیر سے جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے" چشم زدن میں لوگوں کا جم غفیر امڈ آیا اور فائرنگ شروع ہو گئی ۔ ندیم ہانپتا ہوا بھیڑ میں غائب ہو گیا اور سیدھا حزب المجاہدین کے دفتر پہنچ گیا۔ اس کے بعد بیچ کی کہانی انتہائی فکر آموز اور ولولہ انگیز ہے لیکن جس دن ندیم کی شہادت ہوئی اس کے والدین حج کے لئے روانہ ہو رہے تھے۔حاجیوں کی بس جنگل سے گزر رہی تھی کہ شہید کا جنازہ دیکھ کر والد عنائت اللہ بھائی اور شہید کی ماں کے صبر کے سارے بند ٹوٹ گئے لیکن انہیں بس سے اترنے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی اس کی رفتار کم ہوئی ۔ (جاری ہے)
دونوں نے لرزتے ہاتھوں سے شہید بیٹے کو سلامی دی اس کی بلائیں لیں اور سسکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔پھر کیا تھا سرینگر سے بھدرواہ۔ڈوڈہ اور راجوری تک خاندان کا کوئی لڑکا گھر میں نہیں تھا خاندان کے 32 لڑکے جو آپس میں رشتہ دا ر تھے آج تک لاپتہ ہیں صرف 3 کو قبرستان شہداء میں دفن ہونا نصیب ہوا جن میں ایک سولہ سالہ لڑکی بھی تھی۔میری پھوپھی ذاد بہن کا اکلوتا بیٹامحمد حسین1998 سے آج تک گھر نہیں آیا۔اپنے جن بچوں کو وہ گود میںلے کر کھیلتا تھا اب ان کی شادیاں ہو رہی ہیں لیکن انہیں اپنے باپ کی شفقت اور ان کی ماں کو شوہر کی رفاقت نصیب نہ ہوئی۔یہ کشمیر کے ہر گھر کی کہانی ہے اور یہی اصل مسئلہ کشمیر ہے۔کشمیریوں کے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے اپنے بچوں کے خون کا سودا کو ئی نہیں کر سکتا ان کے پاس ایک ہی چوائس ہے آزادی۔
کسی دانشور نے کہا تھا ــ"تم" زندگی میں ایک شخص کو ایک بار بے وقوف بنا سکتے ہو لیکن بہت سے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے بھی انڈین کانگریس اور پنڈت نہرو کے جال میں پھنس کر کشمیریوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کئی قلابازیاں کھائیں لیکن زندگی کا آخری دائو ہار گئے۔ انہوں نے اچانک جو پینترہ بدلا تھا وہ خطا گیا اور کشمیر میں حق خودارادیت کے حق میں ریفرنڈم کروا کے تحریک آزادی کشمیر کو کلید کامیابی دے گیا۔محاذ رائے شماری سے لے کر اپنی کشمیر نیشنل کانفرنس کو انڈین کانگریس میں ضم کرنے اور پھر پینترہ بدل کر اس سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سابقہ جماعت کشمیر نیشنل کانفرنس کو دوبارہ زندہ کرنے تک شیخ صاحب بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور عوامی غیض و غضب کے ہاتھوں خوفزدہ بھی رہے۔جب نومبر1973 میں طلبہ نے سرینگر میں نیشنل کانفرنس کے دفتر کو آگ لگا دی اور گلی کو چوں میں "شیخ جی جواب دو خون کا حساب دو" کی صدائیں بلند ہونے لگیں تو شیخ صاحب کی سیاست تقریباً ختم ہو گئی اور میر واعظ مولوی محمد فاروق افقِ سیاست پر چھا گئے۔ اس اثنا ء میں جولائی 1977 میں انتخابات کا اعلان ہوا ۔ شیخ صاحب نے عوامی ریلے کا موڈ دیکھ کر ایک تاریخی چال چلی اور اپنے چونکا دینے والے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا جس کے بنیادی نکات مندرجہ ذیل تھے۔
۱۔ کشمیر کو فوری طور پر اندرونی خود مختاری دی جائے ۔ بصورت دیگران انتخابات کو بھارت سے علیحدگی کا ریفرنڈم قرار دیا جائے گا۔
۲۔ ان انتخابات کو رائے شماری کے حق میں یفرنڈم کی حیثیت حاصل ہو گی۔
۳۔ راولپنڈی کا راستہ کھول دیا جائے گا۔
شیخ عبداللہ اپنے انتخابی جلسوں میں انتہائی چالاکی سے ہاتھ میں کھیوڑہ کے پاکستانی نمک کی ڈلی لے کر جاتے اور اسے لہراتے ہوئے کہتے "اسے ووٹ دو گے؟ "ہزاروں لوگ کھڑے ہو کر اور دونوں ہاتھ اٹھا کر نعرہ لگاتے " کشمیر بنے گا پاکستان۔پاکستان زندہ باد " چنائو سے پہلے کشمیر کے ہر سنگ میل اور ہر دیوار پر وال چاکنگ ہوتی رہی"پنڈی کا راستہ کھول دو۔ رائے شماری کا وعدہ پورا کرو" چنائو کے دن لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ سو فیصد رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے انتخابی منشور کے تحت اس جماعت نے90 فیصد ووٹ حاصل کر کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہاں تک کہ لداخ کے کانگرسی لیڈر صنم نر مو نے بھی کانگرس سے استیعفیٰ دے کر کشمیر نیشنل کانفرنس کے ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور ریاستی کابینہ میں وزیر بنے ۔ کشمیر کے سوادِ اعظم اور عوام کے اس تاریخی اجتماعی فیصلہ کے اعلان کے بعد کشمیر کے دانشور ، سیاستدان ، قلمکار خواتین و حضرات پاکستان کی طرف دہائیاں دیتے رہے لیکن راتوں رات کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ ادھر شیخ عبداللہ کو بھارتی ایجنسیوں نے گھیرے میں لے لیا ہوا تھا حسب عادت صبر نہ کر سکے اور ائر پورٹ پر اترتے ہی پر ہجوم پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ میں بھارت کے آئین کو تسلیم کرتا ہوں اس کا وفادار رہوں گا ۔ اس قومی دھوکہ دہی پر لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ کئی روز تک سناٹاچھایا رہا۔ ان کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوا تھا۔ یہ اتنا بڑا دھماکہ خیز فریب ، قومی بد عہدی اور مکر کا جال تھا۔ کہ اگر بھارت کے ہاتھ لگتا تو چڑھ دوڑتا اور ساری دنیا میں ادھم مچا دیتا لیکن پاکستان کے معتبر اور متعلقہ اداروں کی سست روی اور غیر سنجیدگی نے یہ موقع ہاتھ سے گنوا دیا البتہ تاریخ نے ایک خوش آیند موڑ یہ لیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے تمام سیاسی رہنما ئوں نے متفقہ طور پر یہ اعلان کیا کہ اب کشمیر میں انتخابات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عوامی ریفرنڈم کے اکثریتی فیصلے کے مطابق کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کا انتظام کیا جائے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں ۔ وہ دن اور آج کا دن اہل کشمیر جعلی انتخابات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں ۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور آزاد دنیا کی بے حسی کے باعث 1977 سے طویل عرصہ تک کشمیر میں لوکل گورنمنٹ کا نظام معطل رہا ۔ احساس محرومی کی شدت میں نفرتوں کا لاوا پکتا رہا۔ ہندوستان کو اہل کشمیر کی اجتماعی سوچ پر اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا تھا اس لیے دہلی کی دشمنی اور منافقت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ بالآخر 1990 میں تنگ آکر اہل کشمیر نے منظم طریقے سے آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا ۔ ابتدا ء میں پوری ریاست جموں و کشمیر میں لاکھوں لوگوں نے گھروں سے نکل کر احتجاجی جلوسوں میں شرکت کی ۔ سرینگر کی سڑکوں پر دس لاکھ لوگوں نے جمع ہو کر آزادی کے حق میں جلوس نکالا اور پوری وادی بھارتی کتو!واپس جائو کے نعروں سے گونج اٹھی خواتین ، بوڑھوں، بچوں نے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی چھائوں میں پوری قوت سے اپنی آواز بلند کی جواب میں بھارتی فوج اور پولیس نے گولیاں چلائیں۔ شہداء کی تعداد بڑھتی گئی لیکن دنیا کا ضمیر نہ جاگا کیونکہ یہ مشرقی تیموریا سوڈان نہ تھا۔الٹابھارتی حکومت نے کشمیر کوہر لحاظ سے بیرونی دنیا سے کاٹ دیا۔ جب سفارتی محاذ پر اہل کشمیر کی اس عظیم سیاسی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ پزیرائی حاصل نہ ہو سکی اور نہتے لوگوں کی قربانیوں سے مزار شہداء بھرنے لگا تو مجبوراً 1990 میں نوجوانوں نے بندوق اٹھا لی مجائدین نے بھارتی فوج کے اسلحہ ڈپو اور بریگیڈ ہیڈ کواٹر اڑانے شروع کئے تو فوج پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگے ۔ بھارتی فوج کے فسطا ئی ہتھکنڈوں کے ریکارڈ نے ثابت کیا کہ یہ اخلاقیات کے اعتبار سے دنیا کی بدترین پست زہنیت فوج ہے جس کا کوئی ضابطہ اخلاق کوئی اصول نہیں ۔ میر واعظ مولوی فاروق شہید کے جنازے میں ان کی میت پر تین سو گولیاں چلائی گئیں۔ یہ جنگ چودہ سے بیس برس کے نوجوانوں کے علاوہ عفت مآب خواتین کے جسموں اور روحوںپر لڑی گئی۔ یہی غلیظ حرکات انہوں نے یو این مشن کے تحت سرالیون میں بھی کیں ۔ جہاں مقامی باشندوں نے انہیں پکا کر کھا لیا۔22 فروری 1991 کو کنن پوش پورہ کے ایک سکول کے احاطے میں شب برأت کی عبادت کے لے علاقہ بھر کی خواتین جمع تھیں۔ انہوں نے وضو کیا اور نماز تسبیح کے لیے کھڑی ہوئیں تو اچانک بھارت کی راجپوت رائفلز نے دھاوا بول دیا ۔ 7 سے80 برس تک کی عمر کی53 خواتین کو بد ترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔17 خواتین موقع پر شہید ہو گئیں۔33 نے سرینگر ہائی کورٹ میں اپنے بیانات قلمبند کروائے ۔ اس وقت کے ڈویژنل کمشنر وجاہت حبیب نے ان خواتین کے حق میں اپنا بیان قلمبند کروایا لیکن عدالت نے بھارتی فوج کے حق میں حکم امتناعی جاری کر دیا جو آج تک قائم ہے۔تحریک آزادی کشمیر میں کئی موڑ آئے لیکن ایک لاکھ جانیں قربان کرنے اور12 ہزار خواتین کی عصمت دری کے باوجود کوئی بھی حربہ اسے دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ۔ کیونکہ کشمیری اپنے عظیم مقصد میں مکمل طور متحد و یکسو ہیں اور طویل المعیاد حکمت عملی کو بین الاقوامی حالات سے مربوط رکھے ہوئے ہیں۔ اب وہ دل کا پرچم ہاتھوں میں اٹھا کر پتھروں اور غلیلوں سے فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ آسیہ انداربی کی قیادت میں خواتین بھی پاکستان کے پرچم کو سلامی دے رہی ہیں۔ نوجوانوں کے موبائل میں پاکستان کا ترانہ بج رہا ہے۔ وہ سبز لباس پہنتے ہیں ۔ بچوں کی قمیض پر پاکستان کا پرچم بنا ہوتا ہے۔ برہان وانی کا لہو شعلہ جوالہ بن کر ان کی رگوں میں ابل رہا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی کیونکہ ان کے بے مثال اتحاد نے انہیں سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ہے۔ کر فیو کے باوجود وہ اپنے گھروں کی دیواریں توڑ کر ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھانا اور اشیاء ضرورت پہنچا رہے ہیں ۔ ان کے کاروبار ٹھپ ہیں لیکن اس کی انہیں پروانہیں کیونکہ مقدمہء کشمیر بین الاقوامی سطح پرتسلیم شدہ ہے ۔ اس سے انحراف ممکن نہیں ۔ کشمیر پر اقوام متحدہ نے 18 قراردادیں منظور کی ہوئی ہیں ۔ جن پر ہندوستان پاکستان دونوں نے دستخط کئے ہوئے ہیں ۔ 69 سالوں میں کشمیر پر150 سے زائد بے نتیجہ مذاکرات ہو چکے ہیں ۔ پاکستان پر اللہ مہربان ہو رہا ہے اور اس کے کرم سے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جنرل راحیل اور نواز شریف کی قیادت قوم کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔وہ وقت بہت قریب ہے جب بھارت اقوام متحدہ کی زیر التواء قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر مجبور ہو گا۔ اب کے بار کشمیری بین الاقوامی سفارتی سطح پر کمزور نہیں ہیں ۔70 سال میں پہلی بار وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنی طاقتور اور با صلاحیت ٹیم کے ہمراہ مقدمہ کشمیر پر پوری دنیا کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔وہ خود اور ان کے ساتھی دنیا کی ہر قوت کو کشمیر کا آئینہ دکھا رہے ہیںاور اقوام متحدہ کے ایوان برہان وانی شہید کے ذکر سے گونج رہے ہیں ۔ سول حکومت اور فوجی قیادت کی مکمل ہم آہنگی نے بڑھکیں مارنے اور دھونس جمانے والوں کی جھاگ بٹھا دی ہے۔ نواز شریف کے بچھائے ہوئے موٹر وے پر پاک فصائیہ کی حیران کن اور منفرد قسم کی مشقوں نے امریکہ اور یورپ کے مقتدر حلقوں میں ارتعاش پیدا کیا ہوا ہے اور مودی جی اور اجیت کمار عوامی روسٹرم سے اتر کر بندکمروں میں میٹنگ کر رہے ہیں۔اوپر سے اوڑی حملہ بے شمار داستانیں رقم کر گیا ہے۔ کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ وہی بارہ مولا ہے جہاں 1931 میں آزادی کے لیے خواتین کے جلوس پر ڈوگرہ فوج نے فائرنگ کی تھی۔ اس کی قیادت32 سالہ ساجدہ بانو کر رہی تھیں۔ وہ امید سے تھیں گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کا جسم چھلنی کر دیا تھا اور مزار شہداء میں دو قبروں کا اضافہ ہوا تھا ایک ساجدہ بانو اور دوسری ننھے شہید کی قبر جس کا کوئی نام کوئی عمر نہ تھی۔ اسی اوڑی حملے میں 2013 میں بھارتی فوج نے کھیلتے ہوئے بچوں پر فائرنگ کر کے انہیں شہید کیا ۔ ابھی چند روز قبل بارہ مولا کے شہید نوجوان وسیم احمد کو کرفیو کے باوجود ہزاروں لوگوں نے پاکستانی پرچم میں دفن کیا۔1991 میں بارہ مولا سے دریائے جہلم میں بہہ کر چکوٹھی آزاد کشمیر کے لوگوں کو ملنے والی سترہ سالہ کشمیری لڑکی کی لاش آج بھی انصاف کے ایوانوں سے فریاد کناں ہے جس کے پیٹ پر ہزاروں پیپر پنوں سے لفظ " پاکستان "کھدا ہوا تھا۔ اس لیے بات اب سیاسی اور فوجی ڈراموں سے بہت آگے نکل چکی ہے ۔ سچ دیواروں پر، بادلوں پر ، فضائوں میں ، وادیوں میں پانی پر لکھا جا رہا ہے۔ نریندرمودی اور ان کے ہمنوا لاکھ تاویلیں نکالیں کشمیریوں کی منزل عشق ، ان کا پیار ا پاکستان جنرل راحیل شریف اور ان کی فوج کی بے مثال قیادت کی طرح ناقابل تسخیر ہے اور2016 کی پاکستانی قوم کو یقین ہے کہ دھیمے لہجے کا نواز شریف اپنے آہنی عزم کے ساتھ پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا نے کے بعد اقتصادی راہداری کے ذریعہ اس خطے کی کایا پلٹنے کے ساتھ مسلم امہ کے اتحاد اور کشمیر کی آزادی کی منزل حاصل کر کے دم لے گا۔
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے