پاکستان اور بھارت کے درمیان سات دہائیوں سے الجھا ہوا مسئلہ کشمیر ایک سلگتی چنگاری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس سے متعدد بار شعلے بلند ہونے کے باوجودآج بھی خطے کے کروڑ وں باسیوں کے سروں پرخوفناک تصادم کی تلوار لٹک رہی ہے۔ پاکستان تو آج بھی اپنے اسی مئوقف پر قائم ہے جہاں پہلے دن تھا۔ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں اور دو طرفہ معاہدے آج بھی پوری قوم کیلئے محترم ہیں۔مگر بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف پر کوئی ندامت ہے نہ دو طرفہ معاہدوں کی پابندی کا احساس۔کشمیر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور نہتے شہریوںپر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باوجود نہ صرف مذاکرات سے انکارپر بضد ہے بلکہ سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی فرار ہو گیا ہے۔اب اسرائیل کی مدد سے پاکستان کے ساتھ ملحقہ بھارتی سرحد کو دسمبر 2018ء تک مکمل طور پر سیل کرنے کا شوشہ چھوڑ کر پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کیلئے جتن کر رہا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ہوش کے ناخن لینے کی بجائے بھارت اوچھے ہتھکنڈوں سے کیا حاصل کرناچاہتا ہے۔ کیا انہیں سمجھ نہیں کہ اپنی مخصوص ہندو ذہنیت اور عدم برداشت کے رویے سے انہوں نے اقلیتوں کو اپنا دشمن بنا رکھا ہے ۔ستر سال سے کشمیری عوام اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر بھارتی حکمران انہیں بندوق کے زور پر کچلتے چلے آرہے ہیں اور بیچارے کشمیری اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔اس تناظر میں پاکستان اپنے اصولی مئوقف کیمطابق کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی سپورٹ کی بات کرتا ہے تو بھارت آنکھیں بند کرکے کس منہ سے پاکستان پر دہشت گردوں کی امداد کا الزام لگا دیتا ہے۔ کیا کشمیری دہشت گرد ہیں اور کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دہشتگردوں کے حق میں قراردادیں منظور کر رکھی ہیں۔ بھارت کوجب اڑی جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تواسے اصل محرکات کا جائزہ لینے کی زحمت بھی کر لینی چاہئیے۔اگر وہ خود غیرجانبداری سے تجزیہ کریں تو انہیں نظر آجائیگا کہ انکے اپنے انتہاء پسندانہ رویے پواڑے کی جڑ ہیں۔اور یہ عدم برداشت اور انتہاء پسندی ہندو ذہنیت کیلئے کوئی نئی بات نہیںبلکہ شروع سے ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن چکی ہے۔ بھارت میں رونما ہونیوالے متعدد واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جو ہندو ذہنیت کے خطہ پر منفی اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جنوری 1948ء میں ہندو مہاسبھہ کے اہم رکن انتہاء پسند قوم پرست نتھورام گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو محض اس وجہ سے قتل کر دیا تھا کہ وہ خطہ میں ہندو مسلم امن کی خاطرمعاہدے کے مطابق پاکستان کے حصے میں آنیوالی سات سو پچاس ملین روپے کی رقوم میں سے بقایا 550 ملین روپے کی قسط روکنے سے متعلق کابینہ کے فیصلے کے نہ صرف مخالف تھے بلکہ انہوں نے بھوک ہڑتال کرکے بقایا رقوم کا چیک ریلیز کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔1964ء میں کلکتہ کے ہندو مسلم فسادات کے دوران 100 سے زائد لوگ مار دئیے گئے،438 زخمی ہوئے جبکہ 70000 مسلمان بے گھر ہوئے۔ ان مسلم کش فسادات کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ مشرقی بنگال میں ہندووں کیخلاف تشدد کے بعض واقعات رونما ہوئے۔ 1983ء میں آسام کے گائوں ,,نیلی،، میں1800 مسلمانوں کو محض اسلئے ذبحہ کر دیا گیاکہ وہاں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا تھا کہ آسام میں غیرقانونی رہائش اختیار کرنیوالوں کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کئے جائیں۔1987ء میں اترپردیش میں فوجی اہلکار میرٹھ شہر کے محلہ ہاشم پورہ سے 42 مسلم نوجوانوں کو ایک ٹرک میں ڈال کر لے گئے اور مراد نگر کے قریب سب کو گولیوں سے اڑا کر لاشیں نہر میں دفن کر دیں۔چند دنوں بعد لاشیں نمودار ہوئیں تو اترپردیش میں فسادات امڈ آئے مگر مسلم آواز کو خاموش کرنے کیلئے ان کا بے دریغ قتل عام کیا گیا۔ دسمبر 1992ء میں ایودھیا میں واقع مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد قوم پرست ہندو انتہاء پسند رضا کاروں نے محض اس بنا پر مسمار کردی کہ بعض ہندو سکالرز کے خیال کیمطابق بابری مسجد مغل حکمران ظہیرالدین بابر نے 1528ء میں رام جنم بھومی کا ملبہ ہٹواکر اپنے گورنر میر باقی سے تعمیر کروائی تھی۔لہٰذا وشوا ہندو پرشاد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی سپورٹ سے یہ مسجد گراکر رام مندر تعمیر کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ اس حوالے سے ایل کے ایڈوانی نے ریلیز کی قیادت کی۔6 دسمبر کو آر ایس ایس، وشوا ہندوپرشاد (وی ایچ پی) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی۔جے پی) اور دیگر قوم پرستوں نے ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں پر مشتمل ریلی جمع کی۔ ریلی نے تشدد کا روپ دھار لیا اور سیکورٹی اہلکاروں کو روند کر مسلمانوں کی چار سو چونسٹھ سال پرانی تاریخی مسجد مسمار کردی۔ جسٹس منموہن سنگھ لبرہن کی رپورٹ کیمطابق مسجد گرانے والوںمیں زیادہ تر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ شامل تھے۔ واقعہ کیخلاف ہندو مسلم فسادات میں دو ہزار سے زائد لوگ جبکہ بمبئی فسادات میں 900 سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے ۔نفرت کی آگ دوسرے ممالک تک پھیلی اور بین الاقوامی طور پر بھارت کوخفت کا سامنا کرنا پڑا۔2002ء کے گجرات ہندو مسلم فسادات میں2000سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ نوجوان لڑکیوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا۔ حملہ آوروں کو نریندرا مودی حکومت نے تحفظ دیا چنانچہ دو لا کھ سے زائد لوگ علاقہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی تفتیشی ٹیم سے اگرچہ مودی کو کلین چٹ مل گئی مگرعمومی تاثر یہی رہا کہ گجرات فسادات میں ہندو انتہاء پسندوں کو مودی حکومت کی سپورٹ حاصل رہی۔تہلکہ میگزین نے ’’ گجرات 2002ء کی سچائی،، کے عنوان سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت جسے اچانک اشتعال کا نام دیتی ہے وہ در حقیقت پہلے سے طے شدہ حکومتی منصوبہ تھا۔ ہیومین رائٹس واچ کیمطابق بھی گجرات فسادات میں پولیس سمیت حکومتی اہلکارملوث تھے۔سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ہندو قوم پرستوں نے کبھی خیر نہیں کی۔ سکھوں کیخلاف گولڈن ٹیمپل اپریشن 1974ء ہندو انتہاء پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کرسچن برادری پر ظلم اور تشدد کی انتہاء کی بنا پر امریکی کانگرس کے چونتیس اراکین نے مودی حکومت کو خط لکھ کر امریکہ میں پائی جانیوالی تشویش سے آگاہ کیا ہے اور حکومت سے انتہاء پسندانہ رویوں پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی تشویش اپنی جگہ اہم لیکن اصل تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارتی قوم پرستوں،اور شدت پسندوں کو بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مکمل تائید و سپورٹ حاصل ہے۔