اسلام آباد نواز رضا
سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سمیت سینیٹر محمد اسحق کے خلاف نیب کیسز کی سماعت جاری ہے انہیں ’’نشان عبرت‘‘ بنانے کے لئے احتساب عدالت میں ’’سپیڈی ٹرائل‘‘ کیا جا رہا ہے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر 19 اکتوبر 2017 کو احتساب عدالت کے سامنے پیش ہورہے ہیں جب کہ میاں نواز شریف جن کے بارے میں وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اعلا ن کیا تھا کہ وہ 19 اکتوبر 2017 کو عدالت میں پیش ہو رہے ہیں اب بتایا گیا ہے وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی علالت کے باعث فی الحال پاکستان واپس نہیں آرہے البتہ ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز نے کہہ دیا ہے کہ ان پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا اس بات کا قوی امکان ہے وہ جلد اپنی دوہری شہریت کے بارے میں احتساب عدالت کو آگاہ کردیں گے اس دوران سیاسی افق پر اہم پیش رفت ہوئی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے مریم نواز، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو اکھٹے بٹھا کر مشکل حالات میں مل کر ساتھ چلنے کی تلقین کی نواز شریف کی سیاسی وراثت میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کے کردار پر بات ہوئی ہے حمزہ شہباز اپنے آپ کو پنجاب کی حد تک محدود کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جب کہ مریم نواز نے اپنے لئے ملکی سیاست کا انتخاب کر رکھا ہے دونوں سیاست میں ایک دوسرے کی معاونت کر سکتے ہیں شریف خاندان کی تقسیم کے تاثر کو زائل کر سکتے ہیں۔ دونوں میاں شہباز شریف کی رہنمائی میں آگے بڑھ سکتے ہیں مریم نواز جنہوں نے ’’جارحانہ‘‘ انداز سیاست اپنا رکھا ہے ان کی جانب سے ریاستی اداروں پر تنقید نے مسلم لیگ(ن) کے پالیسی سازوں کے لئے پریشان کن صورت حال پیدا کر رکھی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے مریم نواز کو ریاستی اداروں سے محاذ آرائی نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے مسلم لیگی حلقوں میں ’’کزنز میٹنگ‘‘ کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے اس سے ’’سیاسی وراثت‘‘ پر ہونے والی ’’سرد جنگ‘‘ مکمل طور تو ختم نہیں ہوئی لیکن بڑی حد تک اس کی شدت میں کمی آجائے گی دونوں کے لئے ’’ میدان سیاست‘‘ کے تعین سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی، دوسری طرف عمران خان اپنی اسی پرانی ڈگر پر چل رہے انہوں نے سیاست میں جو طرز کلام اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے بلکہ متحارب سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے فوج اور عدلیہ کے ’’خود ساختہ‘‘ ترجمان حکومت ، فوج اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کار کو خراب کرنے میں بھی اپنا کر دار ادا کر رہے ہیں عمران خان کا بات بات پر سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دینا ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ بن چکا ہے اسی طرح شیخ رشید احمد بھی ہر 3،4 ماہ بعد کچھ ہوجانے کی پیش گوئی کر کے اپنا کاروبار سیاست چلا رہے ہیں ۔ حکومت، فوج اور عدلیہ کے درمیان فاصلوں کا سب سے زیادہ فائدہ یہ دو ’’سیاسی مہرے‘‘ اٹھا رہے ہیں ان کی سیاست کو حکومت ،فوج اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی سے تقویت ملتی ہے شیخ رشید احمد بھی قطر سے ایل این جی کے معاہدے کی جو کاپیاں لے کر پاکستان واپس آئے ہیں ایک ہفتہ گذرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بات نہیں نکا ل سکے وہ پریس کانفرنس میں 200 ارب روپے کی کرپشن کے دعوے کی صداقت کے لئے معاہدے کی کاپی تو لہراتے رہے ہیں لیکن تاحال کوئی ایسی بات تلاش نہیں کر سکے جس سے وہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف عدالت میں کیس لے جا سکیں دوسری طرف وزیر اعظم شاہ خاقان عباسی خود ایل این جی کیس کا دفاع کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں شیخ رشید احمد کے ذریعے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو دبائو میں لانے کی حکمت عملی تاحال کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت حکومت اور فوج کے درمیان ’’مثالی‘‘ تعلقات کار نہیں اہم قومی ایشوز پر دونوں اداروں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا برملا اظہار کیا جا چکا ہے طاقت کا توازن ’’اسلام آباد‘‘ سے ’’راولپنڈی‘‘ منتقل ہو گیا ہے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملکی معشت کے بارے میں پریشانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کراچی میں معیشت سے متعلق سیمینار میں میں بہ نفس نفیس شرکت کی ان کا اچانک دورہ متحدہ امارات اور سعودی عرب غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے انٹرسروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے ملکی معیشت بارے میں ان ریمارکس ’’ملکی معیشت بری بھی نہیں تو اچھی بھی نہیں‘‘ پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی جانب سے ’’فوج کے ترجمان کے ملکی معیشت کے بارے میں بیان کوغیر ذمہ دارنہ قرار دینا‘‘ فوج کے ترجمان کے لئے پریس کانفرنس کرنے کا باعث بنا۔ اس پریس کانفرنس سے معاملات کچھ بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی تھی لیکن فوج کے ترجمان نے اس بات پر اصرار کیا کہ انہوں نے ملکی معیشت کے بارے میں جو بات کہی وہ اس پر اب بھی قائم ہیں ماضی میں حکومت اور فوج کے درمیان اس طرح کا مکالمہ نہیں ہوا۔ دونوں اطراف سے جہاں اداروں کا احترام پیش نظر رکھا گیا وہاں ایک دوسرے کے بارے میں الفاظ کے استعمال میں احتیاط کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑا گیا۔ حکومت اور فوج کے درمیان کسی معاملہ پر اختلاف رائے ہو تو وزیراعظم اور عسکری قیادت بند کمرے میں بیٹھ کر دور کرتی رہی ہے اس بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس سے کچھ باتوں کے بارے میں کلیئرٹی آگئی ہے اس سے بڑی حد جمہوریت کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں فوجی ترجمان نے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ یا ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے بارے میں قیاس آرائیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ کچھ سیاسی عناصر بالخصوص نام نہاد سیاسی و دفاعی تجزیہ کار ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں مارشل لاء لگنے والا ہے ملک میں عبوری مدت کے لئے ٹیکنو کریٹ حکومت آنے والی ہے کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس سے سخت مایوسی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں اگرجمہوریت کو کوئی خطرہ ہے تو جمہوری تقاضے اور عوامی توقعات پوری نہ ہونے سے ہوگا‘‘ انہوں نے جمہوریت سے فوج کو کوئی خطرہ نہ ہونے کی جو بات کی ہے وہ فوج کی جانب سے ملک میں جمہوری نظام کے بارے میں پالیسی بیان ہے۔ لیکن میجر جنرل آصف غفور یہیں بات ختم کر دیتے تو مناسب تھا جمہوریت کے تقاضوں پر ان کی رائے کے اظہار سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوسکتا تھا، بھلا ہو وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا انہوں نے اس معاملہ پر بات بڑھانے کی بجائے یہ کہہ کر معاملہ ختم کر دیا کہ فوج کے ترجمان کی وضاحت کے بعد مزید کوئی بات کہنے کی ضرورت نہیں سو جواب الجواب کا نہ ختم ہونے کا سلسلہ شروع نہ ہوا جس طرح حکومت کو فوج کی کارکر دگی پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے اسی طرح سول حکومت کو فوج کے بارے میں غیر ضروری تبصرے نہیں کرنے چاہیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بار بار مارشل لاء کی رٹ لگا کر عوام کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف ملک میں مارشل لاء نافذ کروانا چاہتے ہیں جب کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ ’’ مجھے نہیں لگتا نواز شریف مارشل لاء لگوانا چاہتے ہیں‘‘ بہر حال عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں یا شیخ رشید احمد ملکی سیاست کا جو نقشہ کھینچ رہے ہیں اس کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیراعلیٰ پنجاب میں نواز شریف اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک ہی’’ کشتی‘‘ پر سوار نظر آتے ہیں وہ ریاسی اداروں کے ساتھ تصادم کے حق نہیں ان کی کوشش ہے مسلم لیگ(ن) کی حکومت تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے مفاہمت کے ماحول میں اپنی آئینی مدت پوری کر ے اور آئندہ 8 ماہ میں اپنے ترقیاتی اہداف حاصل کرکے انتخابی معرکہ میں اترے جب کہ تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر قبل از وقت انتخاب کے لئے دبائو ڈالنا چاہتی ہے لیکن قرائن یہ بتاتے ہیں قبل از وقت انتخاب کا کوئی امکان نہیں ۔ملک کی 6 دینی جماعتوں میں اتحاد پر اصولی طور پر ا تفاق رائے ہو گیا ہے تاہم د ینی جماعتوں کے اجلاس میں اس اتحاد کے خد و خال واضح نہیں کہ اتحاد کی کیا شکل ہو گی اتحاد کے خدو خال تیار کرنے کے لئے6 رکنی سٹیئرنگ کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ، اکرم خان درانی، اویس نورانی، مولانا یوسف شاہ،مولانا امجد ، رمضان توقیر ، رانا شفیق پسروری پر مشتمل ہے سٹیئرنگ کمیٹی کی سفارشات کا اعلان 9 نومبر کو جماعت اسلامی پاکستان کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں ہو گا جماعت اسلامی ، جمعیت علما اسلام (ف) او ر مرکزی جمعیت اہل حدیث کی دو متحارب سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کاحصہ بنا رہنادینی جماعتوں کے ا تحاد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے ملک کی چھ بڑی دینی جماعتوں کے اتحاد کے لئے سٹیئرنگ کمیٹی سابقہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا جائزہ لے گی 9 نومبر 2017ء سے قبل سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس تین اجلاس منعقد ہوں گے ۔ سٹیئرنگ کمیٹی کی رپورٹ موصل ہونے کے بعد دینی جماعتوں کے 3،4 سربراہی منعقد ہوں گے دینی جماعتوں کے اتحاد کے خد و خال دسمبر 2017ء کے اواخر تک تیا رہو جائیں گے دینی جماعتوں کے اجلاس میں مولانا سمیع الحق کی شرکت کو مولانا فضل الرحمنٰ کی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔