فرخ سعید خواجہ
پنجاب کا صوبائی دارالحکومت لاہور ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہبازشریف حکومتی ترقیاتی منصوبوں کو تیزی کے ساتھ پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں۔ مریم نوازشریف اور حمزہ شہبازشریف پچھلے دنوں سے لاہور کی سیاست میں متحرک ہو گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے مرکزی صدر آصف علی زرداری بھی ان دنوں لاہور میں ہیں۔ بلاول ہاﺅس میں پارٹی کے ٹکٹ ہولڈروں کے ساتھ اجلاسوں کے علاوہ انہوںنے مسلم لیگ (ن) کے ناراض سینیٹر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ سے بھی ملاقات کی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق بھی لاہور میں ہیں اور ان کی سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں۔ پی ٹی آئی لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سب سے تگڑی حریف ہے۔ اس کے چیئرمین عمران خان یہاں آتے جاتے رہتے ہیں‘ تاہم یہاں عبدالعلیم خان چیئرمین سیکرٹریٹ میں اپنی ٹیم کے ساتھ سرگرم ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید اور سابق صدر پنجاب اعجاز چودھری بھی خاصے متحرک ہیں۔ البتہ چودھری سرور کارنر ہو چکے ہیں۔ الیکشن 2018ءکی پارٹی ٹکٹوں کے حوالے سے ان قائدین میں اختلافات ہیں جنہیں حل کروانے کیلئے عمران خان سرگرم ہیں۔
آیئے پہلے مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے سیاسی معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔ میاں شہبازشریف پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اس وقت پارٹی لیڈروں کے سرخیل ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ میاں نوازشریف کی خاندانی مشکلات کے دور میں مسلم لیگ (ن) کو آگے بڑھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی پچھلے دنوں خواجہ سعد رفیق سے اہم ملاقات ہوئی۔ خواجہ سعد رفیق کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سیانے رہنماﺅں میں ہوتا ہے۔ ان کا ماضی خاصا تیکھا ہے۔ پرویزمشرف کے دورحکومت میں انہوں نے ڈکٹیٹرشپ کا مقابلہ بہت بہادری اور ذہانت کے ساتھ کیا تھا۔ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ وہ پنجاب میں مشرف دور میں پارٹی کے صوبائی صدر سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے ساتھ جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ اس زمانے میں لاہور کے صدر حاجی امداد حسین تھے جوکہ اب پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ لاہور میں پارٹی کے صوبائی سطح کے تمام پروگراموں کی قیادت سردار ذوالفقار کھوسہ کے ہاتھ میں تھی جبکہ ان پروگراموں کی منصوبہ بندی خواجہ سعد رفیق کیا کرتے تھے۔ سردار صاحب کو ان کی تنظیی صلاحیتوں پر بے پناہ اعتماد تھا۔ مشرف دور میں مسلم لیگ (ن) لاہور نے چیئرنگ کراس پر ایک احتجاجی پروگرام رکھا۔ حاجی امداد پروگرام کے روح رواں تھے۔ سردار صاحب سے ہم نے پوچھا کہ آپ آرہے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ خواجہ سعد رفیق لاہور میں نہیں ہے۔ وہاں تھوڑے سے لوگ ہونگے‘ میں آکر کیوں شرمندہ ہوں۔ سعد رفیق ہو تو وہ اتنے لوگ اکٹھے کر لیتا ہے کہ باعزت مظاہرہ ہو جائے اور واقعی اس مظاہرے میں ساٹھ ستر کارکنوں نے شرکت کی۔ خواجہ سعد رفیق کو اس دور میں پارٹی قیادت کے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ انہیں جنرل سیکرٹری پنجاب کے عہدے سے الگ کر دیا گیا اور ان کی جگہ سید زعیم حسین قادری نے کی۔ زعیم قادری کا شمار بالعموم واجہ سعد رفیق کے قابل اعتماد ”سیاسی پٹھوﺅں“ میں ہوتا ہے۔ جلدہی زعیم قادری کی جگہ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر راجہ اشفاق سرور کو لے لیا گیا۔ سردار ذوالفقار کھوسہ اور راجہ اشفاق سرور کی جوڑی نے بھی مشرف دور میں بہت کام کیا۔ ان کے دست و بازو شعبہ خواتین پنجاب کی صدر بیگم نجمہ حمید‘ یوتھ ونگ پنجاب کے صدر میاں غلام حسین شاہد‘ لیبر ونگ پنجاب کے صدر سید مشتاق حسین شالہ‘ کسان ونگ کے میجر (ر) سید ذوالفقار شاہ‘ ایم ایس ایف کے مرکزی صدر رانا محمد ارشد و دیگر تھے۔ آفس سیکرٹری سرفراز حیدر کاظمی نے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا‘ تاہم الیکشن 2008ءکے بعد جب سردار ذوالفقار کھوسہ کی جگہ میاں شہبازشریف پنجاب کے صدر بنے تو سردار صاحب ناراض ہو گئے۔ انہیں گلہ تھا کہ تبدیلی کا فیصلہ ان کو اعتماد میں لیکر نہیں کیا گیا۔ جناب ذوالفقار کھوسہ بہت شاندار بزرگ ہیں جوکہ 1962ءمیں صرف 26 سال کی عمر میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1973-74ءمیں جب پیپلزپارٹی کا ملک میں طوفان آیا ہوا تھا۔ وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے اور 1974ءکے ضمنی الیکشن میں ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 1977ءمیں دوسری مرتبہ پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ 1985ءکے غیرجماعتی الیکشن سے 1997ءتک ہر مرتبہ وہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیتے۔ وہ میاں نوازشریف کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔ 2008ءمیں میاں شہبازشریف سے پہلے ان کے صاحبزادہ دوست محمد خان کھوسہ کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے وزیراعلیٰ پنجاب بنایا‘ تاہم سردار دوست محمد حخان کھوسہ نے ہی اپنے والد کی مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے دوری کا سامان کر دیا‘ تاہم سردار ذوالفقار کھوسہ نے جو چاہا کیا۔ میڈیا پر جو من میں آیا کیا‘ لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ان کے خلاف کوئی ڈسپلنری ایکشن نہیں لیا۔ البتہ ان کے ڈیرہ غازی خان میں عزیز سردار امجد فاروق خان کھوسہ کو اپنے ساتھ لے لیا اور 2013ءمیں وہ رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ (ن) ہیں۔ سردار اویس لغاری اور سردار جمال لغاری کو اپنے ساتھ لے لیا اور انہیں اہم ذمہ داریاں بھی سونپیں جو اس بات کا پیغام تھا کہ اب مسلم لیگ (ن) میں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی میں جو لوگ ڈیرہ غازی خان میں موجود ہیں‘ ان کے ہوتے ہوئے وہاں جگہ بنانی مشکل تھی۔ سو سردار صاحب کے پاس دو راستے تھے‘ ایک یہ کہ خود سیاست سے ریٹائر ہو جائے اور مسلم لیگی ہی کہلاتے رہے‘ ان کے بے البتہ پیپلزپارٹی میں جانے کیلئے آزاد ہوئے دوسرا یہ یہ کہ خود بچوں سمیت پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں۔ اب جبکہ سردار صاحب آصف زرداری سے ملاقات کر چکے ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ وہ دونوں راستوں میں سے کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ویسے گمان غالب یہی ہے کہ بلوچ سردار میدان سے ہٹنے کی بجائے خود بھی پیپلزپارٹی میں جائے گا اور قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑے گا۔
اب ہم جناب زرداری کی طرف آتے ہیں جو بہت سے لوگوں کو قائل کر چکے ہیں کہ آنے والی حکومت پیپلزپارٹی کی ہے۔ لاہور کی حد تک پیپلزپارٹی کی مشکلات کا ادراک انہوں نے کیا ہے‘ لیکن جنوبی پنجاب کے حوالے سے ان کے دعوے مضحکہ خیز ہیں۔ الیکشن 2013ءمیں ماسوائے چند اضلاع کے مسلم لیگ (ن) کے لوگ ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پچھلے ساڑھے چار سال میں جنوبی پنجاب کی طرف جتنی توجہ کی ہے‘ ہمیں یہی لگتا ہے کہ پس پردہ قوتیں بھی جناب زرداری کی پارٹی کو جنوبی پنجاب میں کوئی حیران کن کامیابی دلا سکیں۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنے غیر لچکدار اور کرخت رویئے کے باعث اعتدال پسند حلقے میں اپنی مقبولیت کو کم کیا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات ہیں‘ لیکن کیا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں مختلف اضلاع میں متحارب دھڑے موجود نہیں؟ کیا ان دونوںجماعتوں میں کوئی اندرونی اختلافات نہیں ہیں۔ سو جناب زراری بے شک ”فلاش“ کے اچھے کھلاڑی ہوں‘ لیکن سیاست کے میدان میں ”بلف“ ایک حد تک ہی چل سکتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی تو یہ بہت بڑا سیاسی معجزہ ہوگا۔
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے‘ ان کی سیاست نے اپنے حامیوں کی بہت بڑی تعداد کوکھو دیا ہے۔ جماعت اسلامی کا نظریاتی اور جماعتی ووٹ اپنی جگہ موجود رہے گا‘ لیکن جماعت اسلامی کی اصل سیاسی قوت وہ لاکھوں ووٹر ہیں جو دینی سیاسی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی کے لوگوں کو نسبتاً بہتر کردار کا حامل سمجھتے اور ان کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام لائے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔ مولانا سراج الحق کی سیاست نے ممکن ہے خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کو تقویت دی ہے‘ لیکن ان کی سیاست نے پنجاب میں جماعت اسلامی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کا مقابلہ ہے۔ ادھر پیپلزپارٹی کا امیدوار بھی موجود ہوگا۔ جماعت اسلامی کا حامی ووٹر سوچے گا کہ جماعت اسلامی امیدوار تو جیت نہیں سکتا‘ ہم اپنے ووٹ کو ضائع کیوں کریں۔ سو وہ جیتنے کی ریس میں شامل اپنی چوائس کی سیاسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ ڈالے گا اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کا وہی حال ہوگا جوکہ 1993ءمیں ان کا پاکستان اسلامک فرنٹ کا امیدواروں یا این اے 120 کے الیکشن میں ضیاءالدین انصاری ایڈووکیٹ کا ہوا ہے۔