وطن یار خلجی کوئٹہ
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پھر سے دہشت گردی نے سر اٹھا لیا ہے۔ گزشتہ روز کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے2واقعات رونما ہوئے پہلا واقعہ سریاب کسٹم پر پیش آیا جہاں پر پولیس اہلکاروں سے بھرے ہوئے ایک ٹرک کو چنگ چی رکشہ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور زور دار دھماکہ ہوا۔ اس خود کش حملے میں7پولیس اہلکار جاں بحق اور 20زخمی ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس ٹرک میں 35اہلکار سوار تھے اور ٹرک جیسے ہی سریاب کسٹم چوک پر پہنچا تو ذرائع کے مطابق یہاں پر پہلے سے موجود ایک چنگ چی رکشہ کے ڈرائیور نے رکشہ پولیس ٹرک سے ٹکرادیا۔ دھماکے سے ٹرک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ کسٹم چوک پولیس ٹریننگ سنٹر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے یہاں پر نیو سریاب جمخانہ بھی موجود ہے تاہم پھر بھی پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ علاقہ انتہائی گنجان آباد علاقہ ہے۔ لوگوں کی زیادہ تعداد موجود ہوتی اور ٹریفک کا بھی رش زیادہ ہوتا ہے۔سریاب کوئٹہ کا سب سے بڑا گنجان آباد علاقہ ہے جو5کلو میٹر ایریا پر محیط ہے۔ تاہم سریاب روڈ گزشتہ دس سال سے کوئٹہ کا انتہائی حساس ترین علاقہ بھی ہے جہاں پر دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ اور تواتر سے ہو رہے ہیں۔ جبکہ حکومت بلوچستان کی جانب سے اس حساس علاقے میں سکیورٹی بھی انتہائی سخت ہے یہاں پر پولیس اور ایف سی کے اہلکار ہر وقت ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں لیکن سخت سکیورٹی کے باوجود ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز دہشت گردی کا دوسرا واقعہ سریاب کے قریبی علاقے قمبرانی میں رونما ہوا جس میں ٹی ڈی کے انسپکٹر عبدالسلام کو نشانہ بنایا گیا اور ان پر فائرنگ کی گئی۔ ذرائع اس واقعہ کو ٹارگٹ کلنگ قرار دے رہے ہیں۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعے کے فوری بعد شہر کے تمام ہسپتالوں میں حکومت بلوچستان نے ایمرجنسی نافذ کی اور ڈاکٹروں سمیت تمام عملے کو ڈیوٹی پر موجود رہنے کی ہدایت دی گئی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری نے کوئٹہ میں پیشہ آنے والے دونوں واقعات کی شدید مذمت کی ہے اورکہاہے کہ ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے خوفزدہ نہیں کر سکتے، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ دہشت گردی کا جلد بلوچستان سے خاتمہ کر دیں گے اور صوبے کو پرامن بنائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے سکیورٹی اداروں کے جانبازوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں ۔ان شہداءوطن کا خون ضرور اور جلد رنگ لائیگا۔وزیراعلیٰ بلوچستان کی یہ بات بجا طور پر درست ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کیلئے پاک فوج، ایف سی، پولیس لیویز اور دیگر سکیورٹی اداروں نے جانوں کا نذرانہ دیا ہے اور واقعی ان قربانیوں کی بدولت بلوچستان آج دس سال پہلے والا بلوچستان نہیں رہا ۔ کسی حد تک یہاں پر امن آ چکا ہے تاہم جب سے سی پیک کے منصوبے پر اعلان اور کام کا آغاز ہوا ہے تو دہشت گردی ایک نئے انداز سے شروع ہوئی ہے اور اس کے تحت کئی اہم نوعیت کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ حکومت بلوچستان نے بار ہا کہا ہے کہ ”را“ بلوچستان میں این ڈی ایس کی مدد سے دہشت گردی کرا رہی ہے اور دونوں ایجنسیاں اس میں ملوث ہیں۔ تاہم بلوچستان میں مبصرین نہ صرف حکومتی کاوشوں کو سراہتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ اس میں شک نہیں ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور ہمارے جوان جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور سکیورٹی ادارے مل بیٹھ کر سکیورٹی پلان کا تفصیل سے ٹھوس جائزہ لیں کہ کہاں پر کوئی کمی ہے اور کہاں کہاں پر کام کی ضرورت ہے۔ نئی سکیورٹی پلان کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے اس پر حکومت بلوچستان اور دیگر اداروں کو سوچنا ہوگا۔ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت بلوچستان اور دیگر سٹیک ہولڈرز اس جنگ میں سیاسی جماعتوں قبائلی عمائدین اور بالخصوص تمام لوگوں کو بھی شریک کریں اور ان سے بھی مشاورت کریں۔ گزشتہ دنوں حکومت بلوچستان کے ترجمان انوار الحق نے بھی کہا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے جس میں نیا سکیورٹی پلان بھی زیر غور ہوگا حکومت بلوچستان نے اگر نئی سکیورٹی پلان کی ضرورت محسوس کی ہے تو یہ بہت اچھی خبر ہے اور اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے تاہم سیاسی جماعتوں اور عوام کو بھی اس پیج پر ساتھ لایا جائے جس پیج پر حکومت بلوچستان اور پاک فوج ایک ہے۔ بلوچستان میں آئی جی پولیس احسن محبوب گزشتہ دنوں ریٹائر ہو گئے اس کے بعد آئی جی پولیس کی ذمہ داریاں قائم مقام طور پر محمد ایوب قریشی کو دی گئیں نئے قائم مقام آئی جی پولیس ایوب قریشی نے چارج سنبھالتے ہی پولیس کو کوئٹہ کی سکیورٹی کیلئے الرٹ کیا اور پولیس کو ٹاسک دیا گیا جس کے تحت گزشتہ ایک ہفتے سے کوئٹہ میں پولیس کی شاندار کارکردگی دیکھنے کو ملی اور کئی کامیاب آپریشنز بھی ہوئے۔ سول ہسپتال بم دھماکے کے ایک سہولت کار کو مارا گیا کئی گرفتار ہوئے، اغوا کاروں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور اس طرح کوئٹہ میں پولیس بھرپور انداز میں سامنے آئی۔ گزشتہ روز پولیس پر خود کش رکشہ حملہ میں سی ٹی ڈی کے انسپکٹر کو نشانہ بنانے کے واقعات کو کچھ حلقے پولیس کی دہشت گردی کیخلاف کی گئی کارروائیوں کا ردعمل بھی قرار دے رہے ہیں۔