لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے مشترکہ مفادات کونسل کی باضابطہ منظوری کے بغیر نیپرا کو وزارت پانی بجلی کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔ فاضل عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے سماعت کی۔ درخواست گزار جہانگیر ترین کے وکیل مصطفی شیرپائو نے فاضل عدالت کو آگاہ کیا کہ نیپرا ایکٹ میں ترامیم کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی باضابطہ منظوری آئین کا تقاضا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اکتیسویں اجلاس میں پنجاب اور بلوچستان کے وزرائے اعلی کی عدم موجودگی کے باوجود سفارشات کو غیر آئینی طور پر منظور کر لیا گیا اور ان سفارشات کو حتمی منظوری کے لئے کابینہ میں بھجوایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کونسل میں ترامیم سے متعلق جو مواد پیش کیا گیا اس کے برعکس کابینہ کے اجلاس میں مواد فراہم کر کے مجوزہ ترامیم کی منظوری حاصل کی گئی۔انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم امتناعی کے باوجود نیپرا کو وزارت پانی و بجلی کے ماتحت کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ نیپرا کو وزارت کے ماتحت نہیں کیا گیا۔صرف وفاق کا انتظامی کنٹرول کابینہ ڈویژن سے لیکر نئی وزارت کو دیا گیا ہے جس پرعدالت نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں کابینہ نے آج تک ایک بھی مسئلہ پر آزاد ذہن استعمال نہیں کیا۔ کابینہ کے اجلاسوں کے میٹنگ منٹس فرد واحد کی مرضی کی نشاندہی کرتے ہیں۔کابینہ اجتماعی سوچ کا نام ہے۔ کسی فرد واحد کا نہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاقی رولز آف بزنس کی حیثیت ڈاکخانے جتنی لگتی ہے۔ فاضل عدالت نے مزید سماعت 8 نومبر تک ملتوی کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ نے نیپرا کو وزارت پانی بجلی کے ماتحت کرنیکا نوٹیفکیشن معطل کر دیا
Oct 19, 2017