گنوار

میں ایک فنکار تھا اور اپنے فن کو نکھارنے کے لئے محبت کرنا سیکھنا چاہتا تھا۔ میں نے والدین کی پسند سے شادی کی مگر میری بیوی گنوار تھی۔ اس خوف سے کہ کہیں اس کے ساتھ رہتے رہتے میرے اندر کا فنکار مر نہ جائے۔
میں ایک دن اپنے بیوی بچوں کو بتائے بغیر انہیں چھوڑ کر پردیس آگیا۔یہاں کئی سال گزر گئے۔ میں بہت بڑا آدمی بن گیا۔ میری پینٹنگز لاکھوں میں بکنے لگیں‘ لیکن میں نے اپنے اندر کے فنکار کو اپنے اندر مرتا ہوا محسوس کیا۔ میں محبت نہ کر سکا۔ میں وآپس لوٹ آیا۔
اتنے عرصہ بعد ان سب کا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی مگر میں مردہ قدموں کے ساتھ چلتا رہا۔ اپنے گھر کے آنگن میں میں نے چھپ کر دیکھا۔ وہی گنوار عورت انہی کپڑوں ، اسی لہجے میں میرے بچوں کو بتا رہی تھی کہ ان کا باپ ایک بے حد پیار کرنے والا مخلص اور محنتی انسان ہے۔ جو سمندر پار ان کے لئے محنت کر رہا ہے۔ وہ انہیں وہ خط پڑھ کر سنا رہی تھی جو میں نے کبھی لکھے ہی نہیں تھے۔
میں نے اپنے بچوں کی شخصیت میں ایک اعتماد دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں اپنے لئے پیار دیکھا‘ عزت دیکھی اور وہ عورت جو میری نظر میں گنوار اور جاہل تھی‘ مجھے ایک لمحے میں محبت کرنا سکھا گئی۔

ای پیپر دی نیشن