قدرت لوگوں کو چن لیتی ہے یا یہ کہہ لیں ان پر مہربان ہو جاتی ہے یا پھر یہ کہہ لیں ان پر زیادہ مہربان ہو جاتی ہے کیوں کہ مہربان تو اس کی ذات ہر ایک کے لئے ہے۔ جس پر اس کی نظرِ کرم ہو جائے وہ زمانے میں مشہور و مقبول ہو جاتا ہے۔ لوگ مختلف حوالوں اور وسیلوں سے سامنے آتے اور چھا جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کا دنیا کے سامنے آنے اور پوری دنیا میں معروف ہونے کا حوالہ اردو زبان بنی۔ وہ اپنی قومی زبان سے شدید محبت کرتے ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ جب دو ترک اکٹھے ہوں تو وہ ہمیشہ اپنی زبان میں بات کرنا پسند کرتے ہیں وہیں اردو زبان کے ساتھ ترکوں کی محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں زبانوں کے درمیان گہرے تہذیبی اور لسانی روابط ہیں۔ خود ’’اردو‘‘ لفظ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے۔ ہمارے نام ترکوں سے زیادہ ملتے ہیں۔ اسی طرح ترکوں سے ہمارے تہذیبی مراسم زیادہ گہرے اور مضبوط ہیں۔ ایک دور تھا جب پاکستان، ایران اور ترکی کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے باقاعدہ حکمتِ عملی بنائی گئی تھی مگر وقت کی چالوں اور زمانے کی بُنی سازشوں نے اسے مکمل نہ ہونے دیا۔ اس کے باوجود ترکی سے ہمارے دیرینہ تعلقات ہمیشہ محبت پر استوار رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی ڈاکٹر خلیل طوقار کی جو استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اُردو کے چیئرمین ہیں۔ اردو سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ انہیں اردو بولتے دیکھ کر گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ پکے پیڈے اردو بولنے والے انسان ہیں۔ ان کی شریکِ حیات کا تعلق لاہور پاکستان سے ہے، یوں انہوں نے اپنے عمل سے پاکستان سے گہرا تعلق استوار کیا ہے۔ وہ اکثر استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں اُردو کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں اور اس میں دنیا بھر سے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے لاہور میں یونس ایمرے ترک مرکز ثقافت قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایک سال تک اس کے ہردلعزیز ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے لاہور کی اہم علمی، ادبی اور ثقافتی شخصیات سے روابط قائم کئے اور ثقافتی ہم آہنگی بڑھانے کے لئے بھرپور اقدامات کئے۔ گزشتہ دنوں مسلم ہینڈز انٹرنیشنل اور پِلاک کے اشتراک سے ان کے اعزاز میں ایک عالیشان تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت عالمی شہرت یافتہ رفاہی شخصیت اور بانی چیئرمین مسلم ہینڈز انٹرنیشنل صاحبزادہ سید لخت حسنین نے کی جب کہ پاکستان تحریک انصاف کی ممبر اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو نہ صرف اپنی زبانوں کو اہمیت دیتے ہیں بلکہ اپنے دوست ملکوں کی زبانوں کو بھی معتبر گردانتے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل طوقار نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی میں خلیل کو علیل لکھتے ہیں کیوں کہ ترکی میں ’خ‘ نہیں لکھا جاتا اور علیل کا مطلب بیمار ہے جس کا مجھ پر اکثر اثر رہتا ہے لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے پاکستان سے ہمیشہ ہی بہت محبت ملتی ہے۔ میرے بچوں اور میری بیگم کی مادری زبان پنجابی ہے اور ان کی قومی زبان اُردو ہے اس طرح میرے گھر میں زیادہ تر پنجابی اور اُردو بولی جاتی ہے۔ مجھے لاہور اور پاکستان سے بے پناہ محبت ہے اور میں نے جب بھی پاکستان کا دورہ کیا ہے ہمیشہ محبت سمیٹی ہے۔ تقریب کے صدر صاحبزادہ سید لخت حسنین نے ڈاکٹر خلیل طوقار کی اُردو زبان اور پاکستان سے محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کا شاہد ہوں کہ جتنی محبت پاکستانی ترکی سے کرتے ہیں ترکی اس سے دُگنی محبت پاکستانیوں سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خلیل طوقار سے میری دوستی انگلینڈ میں مقیم میرے عزیز اور بہت اچھے انسان اور شاعر احسان شاہد کے توسط ہوئی۔ انہوں نے خلیل طوقار کے بارے میں جیسے کہا تھا وہ ویسے ہی ہیں، انتہائی محبت کرنے والے اور پرخلوص انسان جو اپنی موجودگی کا احساس اپنی وفاداری سے دلاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ محبت کی کوئی حدود نہیں ہوتی۔ انسان کہیں بھی رہے یہ خوشبو کی طرح سفر کرتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کی شخصیت بھی خوشبو کی طرح ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں اور یہ خدا کا بڑا کرم ہوتا ہے۔ خدا کرے ان کا یہ اعزاز ہمیشہ برقرار رہے۔