اوور سیز پاکستانیوں کا ووٹ، چیف جسٹس کا بڑا کارنامہ

چیف جسٹس آف پاکستان نے خاموشی سے ایک کارنامہ انجام دیا ہے ، اگرچہ ڈیمز کی تعمیر کے لئے وہ انتہائی سرگرم کردار ادا کرر ہے ہیں اور ان کی اپیل کا رد عمل بھی حوصلہ افزا ہے۔ کسی چیف جسٹس کی ذمے داریوں میںڈیم کی تعمیر شامل نہیں مگر وطن عزیز پانی کے سنگین بحران سے دوچا ر ہے اور پانی ایک بنیادی حق ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس نے اس ہمالیائی پراجیکٹ میں ہاتھ ڈال کر قوم کو اول تو جگانے کی کوشش کی ۔ دوسرے انہوںنے سیاستدانوں کو بھاشہ ا ور مہمند پر متحد بھی کیا۔ اس پر پی پی پی کے لیڈر فاروق نائیک نے تو کہا ہے کہ تاریخ چیف جسٹس کے احسان کو یاد رکھے گی۔ مگر اس سے بھی بڑا احسان چیف جسٹس نے قوم پر یہ کیا ہے کہ دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو ووٹنگ کے عمل میں شرکت کا موقع بہم پہنچایا اور وہ بھی ان کی دہلیز پر انہیں یہ سہولت فراہم کی گئی۔ اوورسیز پاکستانی ملک کے لئے عظیم سرمایہ ہیں، وہ خون پسینہ ایک کر کے ملک کی خدمت میںمصروف ہیں ، ان کی ترسیلات سے قومی خزانے کو بڑی تقویت ملتی ہے اور ان کے خاندان الگ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کے قابل ہیں۔مگر کیا ظلم ہے کہ ان اوور سیز پاکستانیوں کو اپنے ملک کی حکومت اور قانون سازی کے عمل سے ستر برسوں سے محروم رکھا گیا۔ اگر ان میں سے کوئی ووٹ ڈالنا چاہتا تھا تو اسے چھٹیاں لے کر اور مہنگی ٹکٹیں خرید کر پاکستان آنا پڑتا تھا۔ مگر حالیہ ضمنی الیکشن میں اوورسیز پاکستانیوں نے پہلی باراپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اس معرکے کی تفصیل بڑی دل چسپ ہے۔ پاکستان کا پہلا دستور تہتر میں بنا، یہ دستور اوور سیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے بارے میں خاموش رہا، شاید اس وقت یہ مسئلہ تھا بھی نہیں۔ مجھے اسی اور نوے کے عشرے میں کئی بار بیرونی ملکوں خاص طور پر یورپ میںجانے کا موقع ملا تو ان پاکستانیوں کاایک ہی سوال ہوتا تھا کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے اور بیرون ملک کنسٹی چیونسیاں بنا کر انہیں چند نمایندے پارلیمنٹ میں بھیجنے کا موقع دیا جائے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے سیاست دان، بیور وکریٹ بیرون ملک جاتے تھے ا ور ان لوگوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے تھے مگر ان کی آواز پر کان دھرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ اوور سیز پاکستانی بے چارے چیختے رہے۔ چلاتے رہے۔ ان کی پکار صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی۔ بالآخر ترانوے میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں ووٹ کا حق تو دے دیا گیا مگر وہ ووٹ ڈالیں توکیسے۔ صرف ایک طریقہ تھا کہ وہ پاکستان آئیں اور یہاں اپنے پسندیدہ امید وار کو ووٹ ڈالیں۔ اوور سیز پاکستانیوںنے جد وجہد جاری رکھی ، حتی کہ ان کے مطالبے کا چیف جسٹس نے نوٹس لیا۔ اوور سیز پاکستانیوںنے بھی رٹ دائر کی ۔ تحریک انصاف کا بھی منشور تھا کہ وہ ان لوگوں کو ای ووٹنگ کا حق دلوائے گی۔ چنانچہ عمران خان اور ڈاکٹر عارف علوی بھی اس مقدمے کے فریق بن گئے۔ چیف جسٹس نے انصاف سے کام لیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ نادرا ای ووٹنگ کا ایک نظام تشکیل دے تاکہ اوورسیز پاکستانی اپنے گھر بیٹھے پاکستان کے الیکشن میں شرکت کر سکیں۔میری یہ رائے ڈھکی چھپی نہیں کہ نادرا کے پاس ٹیکنالوجی موجود ہے، ہنر مندی بھی موجودہے۔ یہ ادارہ بیس کروڑ پاکستانیوں کا بہت بڑا ڈیٹا پوری ذمے داری سے سنبھالے ہوئے ہے اور اس کی ٹیکنالوجی کا لوہا بیرنی ممالک بھی مانتے ہیں۔ نادرا کے موجودہ چیئرمین عثمان مبین تیئیس برس سے ایک دن کم کی عمر میں اس ادارے میں شامل ہوئے ا ور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی ترین منصب پر فائز ہیں۔ ان کے ساتھ آئی ٹی کے ماہرین کی ایک بہترین ٹیم ہے، نادرا نے ای ووٹنگ کا نظام بنا دیا مگر چیف جسٹس نے اپنے اطمینان کے لئے اس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ کہیں وقت آنے پر یہ نظام دھوکہ تو نہیں دے جائے گا۔ ڈاکٹر عمر سیف اور دیگر ممتاز آئی ٹی کے ماہرین نے نادرا کے نظام کی جانچ پڑتا ل کی اور اسے کئی ٹیسٹوں سے گزار کر چیف جسٹس کو او کے کی رپورٹ پیش کی۔ پھر بھی چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تو اس نظام کو پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ٹیسٹ کیا جائے، یہ ٹیسٹ حالیہ ضمنی الیکشن میں کیا گیا۔ اوور سیز پاکستانیوں سے کہا گیا کہ وہ ا پنے ا ٓپ کو ایک سافٹ ویئر کے ذریعے ووٹر کے طور پر رجسٹر کریں۔ چونکہ ضمنی الیکشن میں سیاسی پارٹیوں کا وہ جوش و خروش نہیں ہوتا جو عام انتخابات میں ہوتا ہے تو بڑی مشکل سے سات ہزار کے قریب لوگوں نے اپنے آپ کو رجسٹر کروایا اور ان میں سے چھ ہزار ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ووٹنگ کی یہ شرح اسی فی صد سے زائد بنتی ہے۔ میںنے کل کے کالم میں لکھا تھا کہ اس سرور پر دس ہزار کے قریب ہیکروں کا حملہ ہوا۔ یہ بات میڈیا میں آئی مگر اب میری تحقیق ہے کہ یہ نظام مکمل طور پرہیکر پروف ہے اور ضمنی الیکشن میں کسی ہیکر نے ایک بھی حملہ نہیں کیا، پھر بھی سرور کی نگرانی کے لئے نادرا کے ماہرین کی ایک ٹیم الیکشن کمشن کے دفتر میں موجود رہی۔ اس تجربے پر چیف جسٹس بھی مطمئن ہیں اور حکومت وقت بھی دعوی کرتی ہے کہ اس نے اپنے منشور کا ایک بڑا وعدہ پورا کر دیا۔
قومی تاریخ میں یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس سے پاکستان آئی ٹی کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا نظر آتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ہماری قوم جو قابلیت سے مالامال ہے۔ کیا یہ ڈاکٹر عبدالقدیر نہیں تھے جنہوںنے ملک کو خطے میں ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ امریکہ کے ہسپتالوں سے لے کر آئی ٹی کی بڑی کمپنیوں تک ہمارے پاکستانی اپنے کمالات دکھا رہے ہیں۔ ٹھیک ہے امریکہ چاند پر پہنچا مگر چاند سے لائے گئے ٹکڑوں پر تحقیقات کرنے والوں میں ڈاکٹر سعید اختر درانی ناسا کی ٹیم میں شامل نہ تھے۔ وہ ماہر اقبالیات بھی ہیں۔ پاکستان کے طو ل و عرض میں خیراتی ادارے چل رہے ہیں ، ان میں سے اکثر بیرون ملک پاکستانیوں کی فراخدلانہ امداد کے مرہون منت ہیں ۔ آج ہم نے انہیں ایک حق دیا ہے تو وہ اس کے لئے محترم چیف جسٹس آف پاکستان کے شکر گزار ہیں۔ پی ٹی آئی کے بھی شکر گزار ہیں ۔ نادرا کے ماہرین لائق تحسین ہیں کہ جنہوں نے ایک سسٹم بنایا اور اسے چلاکر دکھایا،۔ میں تو اس قت کا منتظر ہوں جب امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے اپنے ملک میں ای ووٹنگ کا نظام آ جائے گا۔ اس نظام کے آ جانے سے دھاندلی ا ور فراڈ کے الزامات کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ اس نظام کی وجہ سے ہم کلی طور پر شفاف الیکشن کروانے کے قابل ہو جائیں گے اور دھاندلی دھاندلی کی گردان ختم ہو جائے گی۔ میں بائیس برس سے ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ اگرچہ پیشہ میرا صحافت ہے مگر میں اپنے ٹیکنالوجی کے تجربے کے پیش نظرکہہ سکتا ہوں کہ نادرا سے ای ووٹنگ کا نظام بنانے کو کہا جائے تو یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہو گا مگرا س کو استعمال میں لانے کے لئے ہمیں سو فیصد شرح خواندگی لانا ہو گی کیونکہ ووٹوں کی مشینی پنجنگ کا کام ایک دیہاتی ان پڑھ مرد یا عورت یا نوجوان تو نہیں کر سکتا۔ اس نظام سے بہرہ مند ہونے کے لئے ہمیں تعلیم کے شعبہ کوبھی متحرک اور سرگرم کرنا ہو گا۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن