یونین آف سوویٹ سوشلسٹ ریپبلک (USSR) سے عالمی طاقت کا ٹائٹل چھیننے کیلئے خراب اور بدترین طرزِ حکمرانی کو فروغ دیا گیا۔ نااہل غیر تجربہ کار اور بدعنوان حکام کے باعث ادارے عملاً مفلوج ہو کر رہ گئے۔ ایک منصوبہ کے تحت روس کو افغانستان کی بند گلی میں دھکیلا گیا۔ روسی بلاک کو اس نہج پر پہنچا نے کے بعد دانش اور تجزیہ کاروں کی منڈی سے لبرل اور خودساختہ دانشوروں کی جنس خریدی گئی، جنہوں نے بہت بڑی فوج اور اُس پر اُٹھنے والے اخراجات کو ملکی معیشت کی بدحالی کا ذمہ دار قرار دیا۔ کرائے پر حاصل کئے گئے دانشوروں نے اپنی تحریروں اور تجزیوں سے ثابت کیا کہ روس اور منسلک ریاستوں کے تمام تر مسائل کی بنیادی وجہ صرف اور صرف روس کا بڑی فوجی قوت ہونا ہے۔ رفتہ رفتہ روس اور اتحادی ریاستوں کے عوام اپنی افواج سے بیزار اور دور ہوتے چلے گئے۔ افواج اور عوام کے درمیان عزت اور احترام کا رشتہ ٹوٹنے لگا اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ روس افغان جنگ میں ناکامی سے قبل داخلی طور پر بدترین طرزحکمرانی بدحال معیشت اور عوام کی اپنی افواج سے لاتعلقی کے باعث عالمی سطح پر جاری سرد جنگ ہار چکا تھا۔ یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ روس کی سول سروس، میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاستدانوں کی بڑی کھیپ نے اپنے ضمیروں کی قیمت وصول کر لی تھی اور پھر گورباچوف بھی اُن ہی کارندہ نکلا۔
ملک دشمن قوتوں نے قریب قریب یہی ماڈل پاکستان کے خلاف اپنایا۔ قیامِ وطن کے فوراً بعد پاکستان میں رنگ نسل مذہب مسلک علاقائی صوبائی لسانی اور دیگر تعصبات کو ہوا دی گئی۔ قیام پاکستان کے ٹھیک 24سال بعد 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہوگیا۔جس پر نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال یا بحرہِ ہند میں دفن کر دئیے جانے کے نشتر برسائے جاتے رہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا بھی کہنا ہے کہ وہ مکتی باہنی کیساتھ مل کر افواجِ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل رہا ۔ بدیسی معیشت دان ملک میں امپورٹ ہو کر آتے رہے، جنہوں نے بیرونی آقائوں کے مفادات کے تابع معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ قیامِ وطن کے فوراً بعد 1948ء کے اوائل میں حکومت پاکستان نے محض وقتی ضرورت اور مخدوش اقتصادی صورتحال کو سنبھالا دینے کیلئے امریکہ سے دو بلین ڈالر امداد لی تھی۔ جس میں سے 170ملین فوج، 75ملین فضائیہ، 60ملین نیوی جبکہ باقی رقم صنعت، زراعت اور دیگر شعبوں کو سہارا دینے کیلئے تھی لیکن بعد میں آنیوالے حکمرانوں نے خود کفالت کی پالیسی اپنانے کی بجائے پاکستان کو بڑی طاقت کی طفیلی ریاست بنا کر رکھ دیا۔ عالمی استعمار کے زیرِ اثرقائم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں نے بھی یہ امر یقینی بنایا کہ پاکستان اپنے قدموں کی بجائے کرائے کی فراہم کردہ بیساکھیوں پر کھڑا رہے۔افواجِ پاکستان سے براہ راست محاذ آرائی کے تصور سے بھی دشمن قوتیں کانپ اُٹھتی ہیں لہٰذا پاکستان کو داخلی طور پر کمزور نیز افواجِ پاکستان اور قوم کے درمیان ایک دوسرے کیلئے پائے
جانے والے عقیدت و احترام کے جذبات کو ختم کرنے کیلئے روس کے خلاف سرد جنگ کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کی گئی۔ چومکھی چالوں کا جال بُنا گیا۔ دہشت گردی کی جنگ مسلط کی گئی۔ کشمیر اور مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مجرمانہ خاموشی برتنے والی نام نہاد’’سول سوسائٹی‘‘ کو غیر ملکی این جی اوز نے پالنا شروع کردیا۔ ممبئی حملوں سمیت تمام بے سروپا الزامات کی ذمہ دار فوج کو قرار دینے والے بھی سربازار اپنا مول لگوانے کو بے چین تھے۔ یہ سب عناصر بیرونی اشاروں پر عساکرِ پاکستان کے خلاف صف آراء تھے۔۔یہ مفاد پرست بھول چکے تھے کہ آج کی دنیا میں مضبوط دفاع ہی امن و سلامتی اور خودمختاری کی ضمانت ہے وگرنہ بقول شاعرِ مشرق ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔ ان تمام تر بحرانی حالات کے باوجود پاکستانی قوم کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی اور اس نے اپنی افواج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کی جنگ اور’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کو شکست دی ورنہ ملاحوں نے کشتی ڈبونے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ آج تمام ملک دشمن قوتیں حیران ہیں کہ وہ تمام تر سرمایہ کاری کے باوجود افواجِ پاکستان اور غیور پاکستانی قوم کے درمیان رومانس کو ختم نہیں کر پائیں۔