نور فاطمہ
دنےا بھر مےں آج جہاں جہاں پاکستانی ہےں، وہاں وہاں اردو بھی گئی ،عمان مےں مقےم اردو ہی نہےں پنجابی کے معروف شاعر ذاکر علی ذاکر (ایم اے) سالہا سال سے ےہاں مقےم ہےں ان کا چند سال قبل شعری مجموعہ ” طلسم وفا“ شائع ہوا تھا، ذاکر صاحب کا مختصر تعارف یہ ہے کر آپ کا سال ولادت 1936ءہے۔ پسرور میں پیدائش ہوئی اور چند سال بعد والد صاحب گوجرانوالہ آگئے اور یوں انہوں نے پرائمری کی تعلیم مشنری سکول سے حاصل کی ۔ 1952ءمیں میڑک گوجرانوالہ کے محبوب عالم ہائی سکول سے فرسٹ ڈویژن میں کیا اور ایف ایس سی زمیندارہ کالج سے کرنے کے بعد 1956ءمیں گھریلو حالات کی وجہ سے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ اس دوران ہفت روزہ قندیل لاہور میں ان کی غزل چھپی اور حکیم تائب رضوی سے اصلاح بھی لیتے رہے۔ 1965ءمیں شادی کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ 1998ءمیں وہ عمان آگئے اور یہاں بھی ایک سکول کی بنیاد رکھی جبکہ شعروشاعری کا سفر بھی جاری رہا۔ 2015ءمیں ذاکر صاحب کا مجموعہ کلام) ”طلسم وفا“ کو ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ اس کتاب میں اردو کے معروف اہل قلم کی آرا شامل ہیں جن میں معروف شاعر مروّت احمد کا مضمون ” خوش فکر اور زندہ دل شاعر۔ ذاکر حسین ذاکر “ شامل ہے جو نذر قارئین ہے۔
سلاست، حسن ادب اور شگفتگی سے مزین دلنشین لہجے کے خوش فکر شاعر ذاکر کو حسین ذاکر جو کہ اپنے نام کے ساتھ گجراتی کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔ ملنسار، خوش اطوار اور زندہ دل شخصیت ہیں۔ ان کی پسندیدہ صنف شاعری غزل ہے اور انہوں نے پر آشوب عہد حاضر کے گونا گوں مسائل، غم جاناں اور غم ہجراں کی تلخیوں، رومان پر ورکیفیات کی دلفریب رنگینیوں اور طنزو مزاح کی چاشنی کو اپنی شعری استعداد کی روشنی میں خوش اسلوبی سے غزلوں کے روپ میں ڈھالا ہے ،جبکہ انہوں نے قطعات، نظموں اور گیتوں پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ مسقط کے مقامی اردو شعرائے کرام میں صرف ذاکر حسین ذاکر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ سعودی عرب کے کثیرالاشاعت اور مو¿قر ”اخبار اردو نیوز“جدو کے تحریری طرحی مشاعروں میں تواتر کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی کئی غزلیںمذکورہ اخبار کی جانب سے دیئے گئے طرحی مصرعوں کے تحت کہی گئی ہیں۔ ”اردو نیوز“ جدہ کے ساتھ ان کا قلمی تعلق گزشتہ کئی برسوں پر محیط ہے۔ علاوہ ازیں ذاکر حسین ذاکر مسقط میں منعقدہ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں بھی باقاعدگی سے اپنا کلام سناتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ ذاکر حسین ذاکر جن کی پچھلی زندگی کے کئی عشرے انتھک تک ودو سے عبارت ہیں،نے احمد فراز(مرحوم) کے اس شعر کو زادہ سفر بنایا کہ
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
چنانچہ انہوں نے شاعری کی جو شمع روشن کی ہے۔ وہ میری نظر میں کہکشاں کی مانند ہے جس کا زندہ وتا بندہ ثبوت معاشرے سے جہالت کی تاریکیوں کے خاتمے اور اسے علم کے نور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اور درخشاں انسانی اقدار کو پروان چڑھانے میں ان کے شانہ بشانہ شبانہ روز اخلاص کے ساتھ سرگرم عمل رہنے والی انکی اہلیہ محترمہ اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایمانداری، عزت و توقیر ،وقار اور سرفرازی کے ساتھ ساتھ ترقی، خوشحالی اور نیک نامی کی راہ پر گامزن ان کی سعادت مند اولاد ہے۔ میرے خیال میں شاعری کے اثرات اگر شاعر کی اپنی عملی زندگی یعنی اسکے طرز بودو باش میں بھی نظر آئیں تو اس کے جاننے والوں کے دلوں میں اس کی قدرو منزلت خود بخود بڑھ جاتی ہے اور اگر اس کے اردگرد کے ماحول ، جس میں سب سے قریب اس کے اہل خانہ ہوتے ہیں، کے سماجی رویے شاعر کی شخصیت سے ہم آہنگ ہوں تو یہ شاعر کی بہت بڑی خوش نصیبی تصور کی جاتی ہے ۔ ذاکرحسین ذاکر جو کہ میرے لیے ایک محترم بزرگ کا درجہ رکھتے ہیں، اس لحاظ سے بہت خوش بخت ہیں کہ انکی ذات گرامی اور ان کا معزز گھرانہ انکے اجلے فکروفن کا آئینہ دار ہے۔میں امریکہ میں مقیم کاروبار سے وابستہ ان کے سب سے بڑے بیٹے فاخر احمد زعیم اور پاکستان میں سرجن ڈاکٹر فیصل احمد زعیم کے بلند مقام و مرتبے ، علم دوستی اور حسن خلق سے غائبانہ طور پر واقف ہوں۔ مگر مسقط میں بسلسلہ کاروبار قیام پذیر، انکے سب سے چھوٹے بیٹے کاشف احمد زعیم ، جنہوں نے بطور مینجنگ ڈائریکٹر، راحت کمپیوٹر سروسز کو خلوص نیت، سدا بہار مسکراہٹ سے لبریز حسن خلق، محنت شاقہ اور لگن کی بدولت تیزی سے وسعت دے کر نہ صرف مسقط بلکہ عمان بھر میں ممتاز و معروف ادارے کی حیثیت دے رکھی ہے اور اس میدان میں نمایاں سرخروئی کی بنا پر وطن عزیز پاکستان کا بھی خوب نام روشن کیا ہے۔ آپ کہیں گے کہ ذاکر حسین ذاکر کی شاعری سے ان باتوں کا کیا ربط ہے تو جواباً عرض ہے کہ منور اور دلنواز شخصیت کے حامل شب گزار شریں بیاں شاعر ذاکر حسین ذاکر کی علم پرور اور انسانی ہمدردی کی پیکر انکی مثالی اہلیہ محترمہ اور درد مندی ، خوش اخلاقی اور پر وقار انکسار کی متاع بے بہا سے مالا مال انکی صالح اولاد انکی ضوفشاں شاعری کے جھلمل جھلمل کرتے اور جگمگاتے ہوئے جیتے جاگتے مظاہر اور شیریں لہجے میں بولتی اور کانوں میں رس گھولتی جاں فزا کرنیں ہیں، جن کی تاب و توانائی عمر رسیدہ شاعر ذاکر حسین ذاکر کو بوڑھا نہیں ہونے دیتی اور انہیں ہمہ وقت متحرک اور خوش و خرم رکھتی ہے۔
آپ نے مروت احمد کی ذاکر حسےن ذاکر کے حوا لے اےسی تحرےر پڑھی جس مےں ان کے فن اور شخصےت کا خاکہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ، مسقط مےں مقےم معروف شاعر ذاکر حسین ذاکر کے اوّلین شعری مجموعے ”طلسم وفا“کے چند اشعار نذر قارئین ہیں۔
جو کہو بیاں کر مدعا، جو کہو دکھاو¿ں نشان راہ
نہ ا بھی یہ ذوق نظر گیا، نہ بھی یہ شوق سفر گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کو چاہا ، اسے چاہا ہے جنوں کی حد تک
بات بس اتنی تھی جو بن گئی رسوائی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔؛۔
دلوں کا حال تو معلوم ہے اس ذات باری کو
وگرنہ شکل سے سب صاحب کردار لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریب شہر کے چہرے پہ کب خوشی ہو گی
حدیث درد کا ہے سلسلہ وہی اب تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانِ وفا! طلسم یہ تری وفا کا تھا
جھونکا مرے چمن میں جو باد صبا کا تھا۔