آج جنت نظیر کشمیر کی وادیاں خون میں ڈوبی نظر آ رہی ہیں۔ خون آشام بنیئے کی خونخواری بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پیلٹ گنوں اور زہریلی گیسوں کے بعد اب کلسٹر بموں سے بھی خون کی ہولی کا آغاز ہو چکا ہے لیکن ہم انسانیت کا علم تھامے عالمی سامراج کو سمجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ آئو اور ہمیں بچائو، مظلوم کشمیریوں کی مدد کرو۔ وہ سامراج جس نے نہتے فلسطینیوں پر لگاتار خونی حملوں اور صیہونی بستیوں کی تعمیر پر کامیابی پر خوشی کے شادیانے بجائے تھے۔ ایران ، عراق، لیبیا، افغانستان اور شام کی تباہی پر بھی ان کا دل نہ بھرا تھا۔ یہی کم جہتی ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اگر امن کا راگ الاپنے والوں نے اب بھی تاریخ سے سبق نہ سیکھا تو کشمیر میں غرناطہ کے سقوط کی کہانی دہرانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
علامہ اقبال کا فلسفہ اور قائد اعظم کی جدوجہد عمل پیہم سے عبارت ہے۔ اقبال نے خودی کا پیام دیا تو قائد نے قوت بازو کے بل پر نہ صرف غیروں کو ناکام بنایا بلکہ اس وقت کے انگریز کمانڈر انچیف کی حکم عدولی کے باوجود کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑی۔ اس وقت بھی یہی عالمی سامراجی ٹولہ تھا جس نے امن کی ڈور ہلاتے ہوئے پرامن طریقہ سے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی بات کی۔ اقوام متحدہ نے بھارت کے ایماء پر ہی کشمیر میں حق خودارادیت کی قرارداد پاس کی۔ اب پاک بھارت کے مذاکرات اور کشمیر پر ثالثی چہ معنی؟ اقوام متحدہ کی قرارداد کیمطابق اب کشمیر میں صرف حق خود ارادیت کے لیے ریفرنڈم کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے۔
تاریخ سے سبق سیکھنے والے دنیا میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں اور ماضی کی شان و شوکت میں سر دھننے والے ذلت کی پاتال میں اپنا وجود بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ مغرب نے مسلم عروج کی داستان کو پڑھا، پرکھا، سمجھا اور اس پر عمل پیرا ہوئے اور دنیا میں چھاتے چلے گئے۔ علامہ اقبال کے افکار اور قائد اعظم کی جدوجہد کو دیکھیں تو ولولہ انگیز قیادت کے پیچھے خودی کا فلسفہ ہی نظر آتا ہے۔ مگر ہم سب کچھ بھول کر صرف ایک سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم نے اپنے خواب و خیال کی دنیا بنا رکھی ہے۔ ہمارے نزدیک چونکہ پاکستان کلمہ کے نام سے وجود میں آیا ہے۔ اسے کوئی نہیں مٹا سکتا۔ یاد رکھیں! مدینہ کی ریاست جس کی بنیاد رسول پاکؐ نے رکھی تھی اور جس کی عمارت خلفائے راشدینؓ نے تعمیر کی تھی۔ اس سے بڑھ کر بابرکت ریاست کوئی نہیں ہو سکتی۔ مگر جب نااتفاقی اور عداوت نے ڈیڑے ڈالے تو وہ پاک ریاست بھی اجڑ گئی۔ پاکستان میں تو ہر طرف عداوت اور نااتفاقی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ریاست مدینہ کی نیابت کرنے والے ایک خدا کے آگے جھولی پھیلانے کے بجائے غیروں کی دست و پناہ کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ اپنے وسائل بروئے کار لانے کے بجائے دوسروں کی مدد سے اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے مگر ہم عالمی ضمیر جگانے میں اپنا زور لگا رہے ہیں جو صرف جب جاگتا ہے جب کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے یا جب کوئی ہندو لڑکی اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے کسی مسلم کی دلہن بن جاتی ہے۔شہ رگ پاکستان ’’کشمیر‘‘ اب لہو لہو ہے۔ گھر گھر میں موت ناچ رہی ہے۔ بے ضمیر عالمی سامراج کی شہ پر مودی دہشت گردی کا جاپ دہرا رہا ہے۔ مسلم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے سقوط غرناطہ کی تاریخ پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں تو مستقبل کے مورخ ہمیں دہلی کے انہی ناکام بدمست عیاش حکمرانوں کا نام دیں گے جن کا مقولہ تھا ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ نئے پاکستان کا فلسفہ اپنانے والے وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے نوجوانوں کو ریاست مدینہ کے نام سے روشناس کروایا ہے۔ انہیں ریاست مدینہ کے معنی کا بھی یقیناً علم ہو گا۔ زکواۃ کی ادائیگی نہ کرنے پر بھی ریاست مدینہ کے والی نے ناموزوں حالات کے باوجود جنگ کا طبل بجا دیا تھا۔ سامان حرب اور وسائل کی کمی کے باوجود دنیا کی دو بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ سے بیک وقت پنجہ آزمائی کرنے سے بھی کوئی اجتناب نہ کیا تھا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اللہ ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ سامانِ حرب کی اہمیت اپنی جگہ! اسی لیے قرآن پاک میں گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ایک استعارہ ہے، اپنی جنگی طاقت پر توجہ دینے کا اور اسکے بعد صرف اللہ تعالیٰ پر کامل یقین۔ لیکن افسوس! 70 سال سے کشمیر میں خونِ مسلم کی ارزانی ہو رہی ہے اور ہم ڈائیلاگ کے چکر میں گھن چکر بنے ہوئے ہیں۔پاکستانی قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اگر اب بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا تو کشمیر میں مسلم کشی کا باب مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خاتمے کا باعث بن جائیگا۔
ایک اور سقوط غرناطہ!
Oct 19, 2019