سیاسی انتہاء پسندی؟

ملک میں غدار غدار کی رٹ پچھلے ستر سال سے عوام سن رہے ہیں جب بھی سیاسی شکست ہویا پھرکسی آمر کو کسی سیاستدان کا چہرہ برا لگنے لگے تو پھر اس کیلئے آسان طریقہ یہی رہ جاتا ہے کہ وہ اسے غدار قرار دیکر جان چھڑالے ۔ ایک مہذت دنیا میں اس کا تصور نہیں جا سکتا ہے ۔ کسی کو غدار قرار دینے کا مطلب ہے اس کی نسلوں کو نشانہ بنا نا ہوتا ہے ۔ہم ستر سال ہوئے آزاد ہوئے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم چھوٹی غلامی سے بڑی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہاں وہ سیاست آئی ہی نہیں ہے جس میں عوام کے حقوق کا خیال رکھا جائے یا پھر عوامی خدمت کے پیش نظر سیاست کی جائے ۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات اتنے رہے ہیں کہ اس کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے چور راستے اختیار کئے گئے ۔ پچھلے دنوں نواز شریف کی تقریر نے ملک میں سیاسی کھیل  بے نقاب کرکے رکھ دیا ۔ ان کے خطاب سے ایسا لگ رہا ہے کہ سیاستدان تو کبھی اس ملک پر حکمران رہے ہی نہیں ہے اگر وہ حکمران نہیں رہے تو پھر اس میں قصور کس کا ہے ۔اس کا جواب  میاں نواز شریف کو دینا چاہئے تھا آخر وہ کون سی مجبوریاں ہیں جس کی بناء پر وہ ہٹائے اور لگائے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے صدر اور تین بار  وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف نے اداروں کالحاظ نہ کیا اور نہ ہی اتنے بڑے عہدے کا لحاظ کیا ۔ نام لے لے کر کسی پر سخت ترین الزامات لگانا اور اس کے جواب میں دوسرے ادارے کا خاموش رہنا بھی شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے ۔ مختلف طاقتور ادارے کے سربراہوں کی میرٹ پر تعیناتی نہ ہونا بھی ایک رنجش کو جنم دیتا ہے ۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے یہ معاملات حل ہونے کی بجائے خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔ سیاستدان ابھی تک اتنے کمزور ہیں کہ اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے ہیں ۔یہی حالات رہے اور الزامات اور سنگین الزامات لگتے رہے تو پھر ملک میں انتشاراور بڑھے گا۔ چند سالوں کو عزیز رکھنے کیلئے ملک کو دائو پر لگانا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے ۔ جب کوئی شخص یا ادارہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھے گا تو پھر نقصان بھی اسی کا ہوتا ہے ۔ ایک طرف میاں نواز شریف کا غصہ کم نہیں ہو رہا ہے میاں شہباز شریف ان کے بھائی جیل میں بیٹھے ہیں ان کی پارٹی کے تمام لوگ اب مریم نواز کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں ۔ مریم نواز شریف کا وہی فلسفہ ہے جو ان کے والد محترم کا ہے ۔ نواز شریف اور مریم نواز ٗ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کا حکومت سے ہٹ کر ادارے کو نشانہ بنانے کا بیانیہ خطرناک ہے۔ اسی طرح جلسے ہوتے رہے تو عوام کے ذہنوں میں بھی حکومت سے زیادہ اس مقدس ادارے کے خلاف نفرت بڑھ سکتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس کا حل نکالا جائے ۔ ادارے جب موجود ہیں تو پھر ان کو کام کرنے دیا جائے۔ قانون ملک میں موجود ہے تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہٹ دھرمی سے نقصان تو ہو سکتا ہے فائدہ نہیں ۔ جلسوں سے اگر اثر نہ پڑتا تو پھر پی ٹی آئی اقتدار میں نہ آتی ہے ۔ پی ٹی آئی کو ان لوگوں نے ووٹ دیا جو ووٹ کیلئے کبھی گھر سے نہیں نکلتے تھے ۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ سب بیٹھ کر ملک کے بارے میں سوچیں اپنے نوکری کے تین چار سال یا اپنی حکومت کے تین سال کو نہ دیکھیں اس وقت بھارت جیسے دشمن حملہ آور ہیں ملک میں اگر جنگ نہیں ہو رہی ہے تو پچھلے چار پانچ روز میں ہمارے پچیس سیکورٹی اہلکار کیوں شہید ہوئے ہیں ۔ اب قوم کیا بغیر جنگ کے اپنے جوانوں کی لاشیں اٹھاتی رہے گی ۔ یہ سوال کئی سالوں سے عام آدمی کے ذہن میں دو ڑ رہا ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ ملک میں اگر میرٹ ہوتا تو پوچھا جانا چاہئے تھا کہ یہ ہمارے فوجی جوان کس کھاتے میں مارے جارہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے ٹائیگر فورس بنا دی ہے اور اس کا ایپ کا تعارف بھی ہوچکا ہے اس کے بارے میں آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ فورس کیا کرے گی کیونکہ ان کی حیثیت کا تعین تاحال نہیں کیا گیا ہے ۔ کیا یہ کرپشن روکے گی یا بھی کرپشن کی نذر ہو جائے گی ۔ وزیراعظم عمر ان خان نے ان سے خطاب کیا  اور میاں نواز شریف پر خوب غصہ نکالا ۔ان کا غصہ دیکھنے والا تھا ۔انہوں نے چیئرمین نیب اور عدالتوں کو جلد فیصلے کرنے کیلئے اپیلیں کیں۔ مطلب جن پر کیسز ہیں ان کو جیلوں میں ڈالیں تاکہ انصاف کا بول بالا ہو ۔ وزیراعظم کو یہ کیوں کہنا پڑا اس کا مطلب ہماری عدلیہ اور نیب ٹھیک کام نہیں کر رہے ہیں ۔ پاک فوج کی جانب سے وزیراعظم نے خوب جواب دیانواز شریف اور ان کے خاندان کو بزدل قرار دیا ۔ سوال ہے کہ کیا عمران خان بھی اب سب کو غدار قرار دینے کیلئے پر تول رہے ہیں ۔ اب غدار غدار کی رٹ ختم کرکے اپنی خامیاں دور کی جائیں ۔دشمن نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہم نظریںچرا رہے ہیں ۔ہر ادارہ دوسرے ادارے کا احترام کرے ۔نہیں تو پھر خدانخواستہ ہوس اقتدار میں ملک کی بقا خطر ے میں پڑے جائے گی۔سیاسی انتہاء پسندی کی بجائے ملکی مفاد کیلئے لڑا جائے تو بہتر ہوگا ۔ ماضی میں غلطیاں کرنے والے آج بھی رسوا ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن