وفاقی شریعت کورٹ کے سابق قائم مقام چیف جسٹس ، جسٹس علامہ ڈاکٹر فدا محمد مرحوم (21اکتوبر 1938۔29نومبر2019) کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اُنہوں نے اسلام کے نام پر بننے والی مملکت، پاکستان میں قوانین کو اسلام کا جامہ پہنانے میں پوری زندگی وقف کر دی۔مرحوم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹر سٹیز ، بورڈ آف گورنرز،سلیکشن بورڈاسلامک یونیورسٹی کے CONSTITUENT UNITبہ شمول شریعت کورٹ اکیڈمی کی کونسلوں اور یونیورسٹی کی بہت سی دیگر کمیٹیوں کا حصّہ تھے۔میری اُن کے ساتھ رفاقت چالیس سال پر مشتمل ہے ۔ اس عرصے میں میں نے اُن کے بارے میں کوئی منفی رائے یا تبصرہ نہیں سنا۔ وہ عظیم سکالر دانشور، مفکر اور قانون کے ماہر تھے۔عام آدمی سمیت ، وکلاء ، جج صاحبان اور علمائے کرام اُن کی علمیت اور مجتہدانہ بصیرت کے بے حد معترف تھے۔ تہجد کے بعد امت ِ مسلمہ خصوصاً پاکستان اور احباب کے لئے خشوع و خضوع سے دعا کرتے تھے۔ایسے خوش نصیب فیض یافتگان میں یہ عاصی بھی شامل ہے۔ مستجاب الدعوات تھے، اُن کی دُعا سے ہر مشکل آسان ہو جاتی۔ فرما یا کرتے تھے ، انسانی جسم کے 450جو ڑ ہیں لہٰذا دن میں 450مرتبہ ’’ حسبنااللہ ونعم الوکیل ‘‘ ضرور پڑھ لیا کریں ، یوں جسم کے ہر حصّے کا صدقہ ادا ہو جائے گا۔
جب میں وفاقی سیکرٹری وقانون تھا ، تو میں نے ہی اُن کی بہ حیثیت جج شریعت کورٹ تعیناتی کی سمری صدرِ مملکت کو بھیجی۔ مرحوم 2اکتوبر1988ء کو اس منصب پر فائز ہوئے اور تادم ِ آخر شرعی عدالت کے جج اور سپریم کورٹ میں شریعت اپیلیٹ بنچ کے ممبر رہے۔فیڈرل شریعت کو رٹ کے چیف جسٹس کے اصرار پر بیماری کے باوجود فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی حیثیت میں جان جان آفریں کے سپرد کی۔ آپ کے مداحوں، اور سوگواروں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔فنا ہر ذی روح کا مقدر ہے لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی زندگی ، دین اور ملک و قوم کی خدمت میں گزرے ۔مرحوم اسلامی قوانین پر سند کادرجہ رکھتے تھے بلکہ اسلامی احکام کی جس طرح تشریح کی اور اُنہیں نافذ کیا ، اسے دیکھتے ہوئے اُنہیں مجتہدالعصر کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ اُن کی وفات عدلیہ کے لئے نا قابلِ تلافی نقصان ہے۔
شاندار اور قابلِ رشک تعلیمی کیرئیر کے حامل جسٹس علامہ ڈاکٹر فدا محمد خان نے پیشہ ورانہ کیرئیر کا آغاز بہ طور استاد پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر شپ سے کیا۔واضح رہے مرحوم کا تعلق ضلع صوابی خیبر پختونخوا سے تھا۔ چھ سال تک اس یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ طلباء کو تعلیم دی۔بعد ازاں پی ایچ ڈی کی ۔ اس حوالے سے پاک فضائیہ کا انتخاب کیا۔ ایئر ہیڈ کوارٹرز میں 20سال تک اسسٹنٹ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن اور ڈائریکٹر موٹی ویشن کام کرنے کے بعد گروپ کیپٹن کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
فیڈرل شریعت کورٹ سے وابستگی کے دوران سود، اسلامی بینکاری اور زمین کے بارے میں متعدد اہم فیصلے کئے ۔ ان میں اسلامی بینکاری اور عصمت دری کے معاملے پر ان کے فیصلوں کو بڑی توجہ اور پذیرئی ملی۔فیڈرل شریعت کورٹ نے حکومت کو معیشت سے متعلقہ غیر اسلامی مفادات ختم کرنے کے لئے قانون سازی کی بھی ہدائت کی، اور 30جون 1992ء تک ملکی معیشت اور اقتصادیات کو اسلامی احکام کی روشنی میں ڈھالنے کی سفارش کی۔
مرحوم نے تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ فلاحی کاموں اور رفاہی اداروں کی ترقی و فروغ پر بھی بھر پور توجہ دی، اور اس حوالے سے اُن کا خلوص کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ جسٹس علامہ ڈاکٹر فدا محمد خان کی زندگی قانونی برادری کے لئے قابلِ تقلید ہے۔وہ جب کبھی لاہور آتے مجھ سے ملاقات کئے بغیر نہ جاتے اور کھانا میرے ساتھ تناول فرماتے، میں اسلام آباد جاتا تو اُن کے درِ دولت پر ضرور حاضری دیتایوں اہلِ خانہ سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ جب میں سپریم کورٹ کا جج تھا تو عدالتی اوقات کے بعد تقریباً ہر روز میری اُن سے ملاقات میں مذہبی اور روحانی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ وہ مجھ سے قلبی وابستگی رکھتے تھے، ہمہ وقت دُعا گو رہتے، اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کے بچوں کے ساتھ قریبی روابط برقرار ہیں اور واٹس ایپ کے ذریعے دُعاؤں کا تبادلہ بھی۔اُن کی رحلت سے میں ایک بڑے اثاثے سے محروم ہو گیا ہوں، بلکہ زندگی میں خلاء پیدا ہو گیا ہے۔مرحوم نہائت خوش مزاج ،متوکل اور کسی بھی حال میں مایوس نہ ہونے والے انسان تھے۔کم ازکم میں نے اُنہیں کبھی مایوس نہیں دیکھا۔مزاج میں خشونت نہیں شگفتگی تھی، باتیں کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے تھے۔متعدد بلند پایہ اسلامی کتب کے مصنف تھے۔وفات سے پہلے توشہء آخرت میں قیمتی اضافہ کر لیایعنی قرآنِ مجید کا انگریزی میں ترجمہ کر ڈالا۔
یادوں کی پرتیں ہیں کہ کھلتی جارہی ہیں مگر انہیں سمیٹنے کی نہ گنجائش ہے اور نہ تاب ، ورنہ ’’ ملاقاتیں اور یادیں ‘‘ کے عنوان سے پوری کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔مزاجوں کی ہم آہنگی اور ہم خیالی کا یہ عالم تھا کہ ملاقات کے دوران گھنٹوں گزر جاتے اور وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتاان ملاقاتوں میں ، قانون ، مذہب ، اور اخلاقیات ہی زیرِ بحث رہتے۔سچ پوچھئے تو ان ملاقاتوں میں میری حیثیت ایک دوست سے زیادہ شاگرد ، عقیدت مند اور خوشہ چین کی ہوتی۔علم کا سمندر تھے۔ جس موضوع کو لیتے سیر حاصل بحث کرتے ، کوئی پہلوتشنہ نہ چھوڑتے ۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے لوگ بہت کم دیکھے ہیں جو عالم بھی ہوں اورباعمل بھی ورنہ گفتار کے ’’غازیوں ‘‘کی تو کمی نہیںمگر ایسے لوگ تو اُنگلیوں پر گنے جا سکتے ہیںجو ارشادِباری تعالیٰ ’’ ایمان والو وہ بات نہ کہو جو تم کرتے نہیں ہو ‘‘ کے سچے عامل ہوں۔ حق تو یہ ہے کہ علم ، عمل اور بصیرت ایک جگہ جمع ہوجائیں تواس سے برآمد ہونے والی شخصیت ہی جسٹس علامہ ڈاکٹر فدا محمد خان کہلانے کی سزاوار ہے۔میرے ذاتی علم میں ہے کہ بہت سے لوگ اپنے دینی و دنیاوی مسائل اور پریشانیوں کے حل کے لئے اُن سے رجوع کرتے تھے۔کبھی کسی کا راز فاش نہیں کرتے تھے ۔ایئر فورس کی سروس کے دوران بھی اپنا موقف آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بیان کرتے رہے اور کبھی کسی کے دباؤ میں نہ آئے۔بلاشبہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ نفسانفسی کے اس دور میں ایسے انسان کہاں ملتے ہیں۔مختار مسعودمرحوم زندہ ہوتے اور ’’ قحط الرجال‘‘ نئے سِرے سے لکھتے ،تویقین ہے کہ جسٹس علامہ ڈاکٹر فد ا محمد مرحوم کا ضرور ذکر کرتے۔
میرے ذاتی علم میں ہے کہ اپنی تنخواہ کا کافی بڑا حصّہ مستحقین کی امدا د کے لئے وقف کررکھا تھا۔وہ خود ہی نہیں بلکہ گھر والے بھی نہائت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔انسانیت کے لئے محبت اور دوستوں کے لئے مہمان نوازی اُ ن پر ختم تھی۔مرحوم سید ابو الاعلیٰ مودودی کی وصیت تھی کہ اُ ن کا جنازہ علامہ صاحب پڑھائیںلیکن بعض مجبوریوں کے باعث اس وصیت پر عمل نہ ہو سکا۔خود میری بھی یہی خواہش تھی کہ میرا جنازہ علامہ مرحوم ہی پڑھائیں لیکن شائد قدرت کو یہ منظور نہ تھا چنانچہ وہ ہم سے پہلے ہی سوئے آخرت چل دیئے۔اُن کا انتقال جمعے کے دن ہوا ،احادیث میںاس دن انتقال کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے بلکہ مغفرت کی نوید دی گئی ہے۔ ع
حق مغفر ت کرے عجب آزاد مرد تھا