مسلم لیگ ن پر پابندی لگ سکتی ہے۔ شیخ رشید
ایسی ایسی درفنطنیاں خدا جانے شیخ جی کے خالی دماغ میں کہاں سے گھس آتی ہیں۔ خدا خدا کر کے پابندی لگانے اور غدار کہلانے والا کھیل ہماری سیاست سے ختم ہو رہا تھا۔ اب بعض مہربانوں کی بدولت لگتا ہے یہ کھیل پھر نئے سرے سے شروع ہونے والا ہے۔ اس خطرناک کھیل کے اثرات پہلے بھی ہم بہت بھگت چکے ہیں۔ اب مزید بھگتنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہو گا۔ اس سے پہلے شیخ رشید کے ممدوح جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بڑی ہمت کر کے غدار کا کھیل بند کیا تھا۔ یوں بہت سے غدار محب وطن قرار پائے اور قیدی رہا ہوئے۔ اب شیخ رشید بالکل الٹ چل رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ایک نیا بھٹو بن رہے ہیں۔ جنرل یحییٰ کی پالیسیاں اپنا رہے ہیں۔ شیخ چلی کی طرح کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ خواہ ن ہو یا ق یا ض اس پارٹی سے جماعت سے اپنا تعلق جوڑتی ہیں جو بانی پاکستان کی جماعت تھی جس کے پرچم تلے پاکستان حاصل کیا گیا۔ کم از کم ہمارے سیاستدانوں کو خواہ مسلم لیگی ہوں یا غیر مسلم لیگی۔ اس تعلق اور نسبت کا ہی خیال رکھنا چاہئے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی ذرا اپنے رویہ پر غور کرے۔ ایسی زبان کے استعمال سے پرہیز کرے جس کی وجہ سے دوسروں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع ملتا ہو۔ یہ ملک بھی ہمارا ہے۔ یہ ادارے بھی ہمارے ہیں۔ شیخ جی بھی تیلی لگانے سے پرہیز کریں۔ تیلی صر ف اپنا سگار سلگانے کے لیے جلائیں۔ جو لوگ غدار ہیں پہلے ان کی خبر لیں۔
٭…٭…٭
کیٹگری بی کے 5807 افراد کو لسٹ سے نکالا جائے گا۔ اعجاز شاہ
وزیر داخلہ صاحب ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ اتنی اہم ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ ملکی حالات سے بھی وہ باخبر ہیں۔ ان حالات میں انہوں نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کرنے کی ٹھانی ہو گی۔ کیٹگری بی کو ہم اردو میں بستہ ب بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں شامل لوگ کچھ زیادہ شریف نہیں ہوتے ہماری زبان میں بستہ ب کے بدمعا ش کافی مشہور لوگ ہوتے ہیں۔ اب اتنی بڑی تعداد میں جو ہزاروں میں ہے ان لوگوں کو بلیک لسٹ سے نکالنے کا مطلب انہیں قانونی پابندیوں سے ریلیف دینا ہے۔ اس طرح تو ان کے ہاتھ پائوں کھل جائیں گے۔ انہیں ایک مرتبہ پھر پر پرزے نکالنے کا موقع ملے گا۔ یہ لوگ تو قانونی شکنجوں کے باجود لوگوں پر اپنا رعب داب برقرار رکھتے ہیں۔ چھوٹے موٹے غنڈوں اور قانون شکن عناصر کی سرپرستی اور تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ اب اگر انہیں مزید چھوٹ مل گئی تو یہ ات مچا دیں گے۔ اس کا صرف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ سو ہر کام کرنے سے پہلے خوب سوچنا چاہئے۔ ایجنسیوں کی رپوٹوںسے زیادہ ملکی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ معاشرے میں انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکے، چوری ، قتل و غارت ، اغواء بھتہ ، تاوان ، زیادتی کی وارداتیں حد سے تجاوز کر چکی ہیں۔
٭…٭…٭
عمران خان کو شیریں مزاری کے آنسو نظر آئے مگر عوام کے نظر نہیں آتے۔ حمد اللہ
جے یو آئی کے پاس جو طوطی شیریں مقال پائے جاتے ہیں ان میں حافظ حمد اللہ بھی سرفہرست ہیں۔ وہ جب بولتے ہیں لب کھولتے ہیں تو؎
ایک پتھر جو دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
والی صورتحال سامنے آتی ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی وہ پٹڑی سے اتر بھی جاتے ہیں اور پتھر بدست نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان انگارے برساتی ہے۔ مگر ان کی حس مزاح جب کام کر رہی ہوتی ہے تب وہ کچھ اور نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے انسانی حقوق کی وزیر تحریک انصاف کی نہایت متحرک اور زیرک عہدیدار اور شیریں مزاری کی انسانی ہمدردی اور ایک کیس میں دکھی ہونے پر بہنے والے آنسوئوں کا تذکرہ کیا تو یہ بھی حمد اللہ صاحب کے لیے ایک مذاق بن گیا۔ انہوں نے فوری چوٹ مارتے ہوئے کہا کہ خان صاحب کو شیریں مزاری کے آنسو تو نظر آئے مگر عوام کے آنسو نظر نہیں آئے۔ اب بھلا حمد اللہ کو کون سمجھائے کہ حضرت شیریںمزاری کے آنسو وزیر اعظم کے سامنے بہتے ہیںجنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس پر ایکشن کون لے گا۔ اس لئے یہ آنسو بے کار جاتے ہیں۔ ان کا نوٹس کوئی نہیں لیتا اور مسائل کے پہاڑ کا سامنا عوام کو خود کرنا پڑتا ہے۔
٭…٭…٭
اجناس اور مویشیوں کی سمگلنگ عروج پر
ایک طرف یہ حال ہے کہ ملک میں وہ بھی اس ملک میں جو اناج کا گھر ہے۔ اجناس کی قلت نے پورے ملک کو پریشان کر رکھا۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ روزانہ سینکڑوں بڑے بڑے مال بردار ٹرک گندم، چاول ، دالوں ، چینی سے بھرے ہوئے ایران اور افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں کپاس سے بھرے ٹرک بھی اس منافع بخش دھندے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ بے شک قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول نہیں مڈل مین دل کھول کر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ ملز مالکان منہ مانگا منافع کما رہے ہیں۔ کسانوں اور کاشتکاروں کو زرعی اجناس کی کم قیمت مل رہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ زرعی اجناس اور جانوروں کی سمگلنگ بھی رسد میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ سینکڑوں مال بردار ٹرکوں میں گائے ، بھینس، بھیڑ بکریاں بھر بھر کر سمگل ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں یہ چیزیں عنقا نہیں ہوں گی تو اور کیا ہو گا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہو اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ یہ سب کچھ ’’دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں‘‘ والی بات ہے۔ سرحدوں کی کڑی نگرانی کے باوجود بے شمار چور دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ راشی اور کرپٹ عناصر اس ھندے میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے زرعی اجناس اور مویشیوں میں خود کفیل ملک ہونے کے باوجود یہاں کے عوام اناج سے محروم ہو رہے ہیں۔
٭…٭…٭