نور مقدم کیس ، سفاک قتل ہے جسے چھپانے کی کوشش کی گئی : سپریم کورٹ

Oct 19, 2021

 اسلام آباد(آئی این پی ) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نورمقدم کیس ایک سفاک قتل ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی گئی،ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی، یہ سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے، جائزہ لیں گے کہ پولیس کو بلانے کی بجائے تھراپی کا کیوں کہا گیا۔سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین ملزمان ذاکر جعفر اورعصمت جعفر کی ضمانتوں کی درخواست پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  دونوں درخواست گزار مرکزی ملزمان نہیں، ان پر قتل چھپانے اور پولیس کو اطلاع نہ دنیا کا الزام ہے، قتل چھپانے کے حوالے سے ملزم کا بیان اور کالز ریکارڈ ہی شواہد ہیں، ملزم اپنے والدین سے پونے 7 بجے سے 9 بجے تک  رابطے میں رہا، والد کے بات ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیئے کہ ضمانت کے مقدمہ میں اپنے رائے دے کر ہم پراسیکوشن کے مقدمہ کو تو ختم نہیں کر سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ممکن ہے کالز میں والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو۔ وکیل خواجہ حارث نے موقف دیا کہ یہ بھی ممکن ہے بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نہ رہا ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم کی ذہنی حالت جانچنے کیلئے میڈیکل کروایا گیا؟۔ وکیل مدعی شاہ خاور نے موقف دیا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے، ذہنی کیفیت جانچنے کیلئے کوئی معائئنہ نہیں ہوا۔ جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیئے کہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی، ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔  جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا صورت حال ہے؟۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ فرد جرم عائد ہو چکی، 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی ہے۔  جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل کے شواہد نہیں۔ ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ماں نے  گارڈ کو دو کالز کیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سفاک قتل ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔  جسٹس قاضی محمد امین نے ریمارکس دیئے کہ وقوعہ کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے  بتایا کہ والدہ کی بھی 11 کالز کا ریکارڈ موجود ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لیں گے کہ پولیس کو بلانے کی بجائے تھراپی کا کیوں کہا گیا۔

مزیدخبریں