انوکھا نرالا وہ ذیشان آیا انوکھا نرالا وہ ذیشان آیا   سارے رسولوں کا سُلطان آیا

ربیع الاول (دنیا کی پہلی بہار) کی 12تاریخ صبح صادق کا وقت کائنات کی ماں سیّدہ بی بی آمنہ ؓ کے کمرے میں کچھ لمبے قد کی خوبصورت عورتیں آتی ہیں‘ آپ پوچھتی ہیں کہ آپ کون ہیں ؟ فرمانے لگیں میں عیسیٰ کی ماں مریم ہوں دوسری نے کہا میں فرعون کی بیوی آسیہ ہوںاور یہ ساتھ جنت کی حوریں ہیں جو اس پاک ہستی کے استقبال کو آرہی ہیں ۔ سیّدہ بی بی آمنہ ؓ فرماتی ہیں میں نے دیکھا کہ ولادت کے وقت ستارے میرے صحن کے اتنے قریب آگئے مجھے ایسے لگا جیسے ستارے میرے آنگن میں ابھی گر پڑینگے ۔ میرے بطن سے نور نکلا اور مجھے شام اور بصرہ کے محلات نظر آنے لگے۔ نور کے آنے سے ہر سمت جو خوشبو پھیل گئی اور خوشبوئوں میں لپٹے نور کی ناف کٹی ہوئی تھی۔ غسل کی ضرورت نہیں تھی اور پھر دنیا میں آتے ہی سجدہ فرمایا اس وقت حضرت عبدا لرحمنؓ بن عوف کی والدہ آپکے پاس تھیں۔ آپکے نورانی ظہور کے ساتھ درختوں میں بہت زیادہ پھل آنے کے ساتھ چشموں کاپانی بھی بڑھ گیا ۔ سبزہ اتنا زیادہ ہوا کہ جانور فربہ ہو گئے ۔ تجارتی قافلوں کو بہت زیادہ منافع ہوا اور مسکراہٹوں کے اس سال میں اللہ کریم نے سب کو بیٹے ہی بیٹے عطاء کیے ۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا عام تھا۔ ظلمتیں ختم ہو گئیں ہزاروں سال سے جلتا ہوا ایران کا آتش کدہ بجھ گیا۔ جانور بھی ایک دوسرے کو خوشی میں مبارکیں دیتے رہے۔ کعبہ اور فرشتے جھوم رہے تھے۔ جنت سجا دی گئی تھی جہنم کی آگ بجھائی جا رہی تھی۔ بت الٹے منہ گر پڑے تھے کسریٰ کے محلات کے کونے گرنے لگے تھے پوری دنیا میںکفر کی نشانیوں کو ہلا دیا گیا تھا اور پوری کائنات نورِ مصطفی ﷺ سے منور ہو گئی اور آج تک عاشقان رسول ﷺ جلوت میں کھوئے ہوئے ہیں ۔
 کائنات میں بہت سے خوش قسمت آئے مگر بی بی حلیمہ سعدیہ کی قسمت سب سے نرالی ہے۔ صرف بی بی حلیمہ سعدیہ کی ہی نہیں آپکی اونٹنی بھی خوش قسمت ہے۔ آپکی بکریاں بھی خوش قسمت ہیں آپکی جھگی کی قسمت کے کیا کہنے جہاں میرے آقا کریم ﷺ کا کھلونا چاند تھا۔واہ اما ں حلیمہ جی کاش ہم آپکے گھر کے مٹی کے ذرات ہوتے جن پر میرے آقا کریم ﷺ کے قدمین مبارک آتے۔ وہ لمحات جو آقا کریم ﷺ کے آپکے ساتھ گزرے آپ نے پنگھوڑے میں میرے آقا کریم ﷺ کو چاند سے کھیلتے دیکھا تھا۔ وہ کتنے کمال و جمال کے لمحات ہونگے جب آقا کریم ﷺ مسکراہٹیں بکھیرتے ہونگے ۔ کبھی آپکی انگلی پکڑ کر ننھے ننھے قدموں سے چل کر کائنات کے ذرّوں کو مہتاب بناتے ہوں گے ۔ کبھی اپنی پسندیدہ کھوئی ہوئی بکری کو لینے جنگل میں جاتے ہونگے اور بوڑھا شیر بکری کو لیکر حاضر خدمت ہوتا اور کہتا یا رسول اللہ ﷺ کئی دنوں سے آپ ﷺ کو دیکھا نہیں تھا اس لیے بکری کو اپنے پاس رکھاکہ اس بہانے آپکی زیارت ہو گئی۔ وہ شام کتنی کمال ہوگی جب اماں حلیمہ کے پاس پڑوس کی عورتیں آئیں اور کہا کہ کیا آپکے پاس تیل زیادہ ہے جو ساری رات آپکے گھر میں دیا جلتا ہے۔ آپ نے آقاکریم ﷺ کے پاس لے جا کر کہا جس دن سے میرے پیارے محمدﷺ گھر میں آئے ہیں مجھے چراغ جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔میرے آقا کریم ﷺ وجہہ تخلیق کائنات ہیں۔ کائنات کی روح ہیں ۔ کائنات اس وقت تک ہی قائم و دائم ہے جب تک روحِ کائنات موجود ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ رب ہونے کی دلیل ہی مصطفی ﷺ ہیں اور جناب اقبال نے کیا خوب فرمایا کہ:
دل لگانے کی ایک ہی کائنات ہے
وہ حضورﷺ کی ذات ہے
عاشقان رسول ﷺ دنیا میں اپنے گھر گلیاں ،بازار سجا رہے ہیں اور مالک کائنات جنتوں کو سجا رہا ہے۔ دنیا میں ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں:
سوہنا اے من موہنا اے بی بی آمنہ تیرا لال جی 
کہوے سعدیہ واری جاواں 
ایہدی سوہنی صورت میرے دل وچ کھبدی جاوے
تک کے مستی نیناں والی ہوش وی اڑدی جاوے 
مار گئی سانوں مار گئی ایہدی سوہنی سوہنی چال نی
کہوے سعدیہ واری جاواں 
اپنی ایہہ تے گل نئیں کردا رب دی بولی بولے
سن کے مٹھڑے بول نی اڑیو من میرا پیا ڈولے
کیا باتاں دن سیا ہ راتاں ایہدے کالے کالے وال نی 
کہوے سعدیہ واری جاواں
ایہدے ورگا جگ وچ اڑیو کر دا پیار نہ کوئی 
اس توں ودھ کے قسم خدا دی ہو ر کتے نہ ڈھوئی
غم ڈلدے ہنجو نئیں ڈلدے جدوں ہس کے پچھدا حال نی
میری ڈاچی والیاں ودھیاں اس دن توں رفتاراں
جس دن توں نے پھڑیاں ایہنے ایہدیاں آن مہاراں 
تَر گئی آں میں تَر گئی آں میرا ماہی میرے نال
مک گئے صدمے غربت والے ٹُٹ گیا غم دا نالہ
جس دن داا یہہ گھر وچ آیاہو گیا نور اُجالا
حق آکھاں گل سچ آکھاں کدی دیوا نئیں رکھیا بال
کہوے سعدیہ واری جاواں 
آج پوری کائنات میرے آقا کریم ﷺ کا صدقہ کھا رہی ہے جو مانتے ہیں وہ بھی جو نہیں مانتے وہ بھی میرے آْقا کریم ﷺ نے ان کی بات بھی سنی جن کی بات کوئی نہیں سنتا تھا۔ ریاست مدینہ میں انسانوں کی ہی نہیں جانوروں کی شکایتیں بھی سنیں۔ آقا کریم ﷺ کے یاروں کے صدقے جائیں گھر کا سارا مال قدموں میں رکھ دیتے ہیں اور آقا کریم ﷺ کے پوچھنے پر جواب دیتے ہیں میں گھر میں اللہ کریم اور رسول اکرم ﷺ کی محبت چھوڑ آیا ہوں ۔یہ میرے آقا کریم ﷺہی تھے جنھوں نے ایک حبشی غلام کی چکی پیس کر مؤذنِ رسول ﷺ بنا دیا اگر کوئی اعرابی مری گوہ لے کر گزرے ہوئے لوگوں کا ہجوم دیکھتا ہے قریب آکر کہتا ہے آپ نے ہمارے باپ دادا کے دین کو خراب کر دیا اگر آپ سچے نبی ہیں تو اس گوہ کو کہیں یہ گواہی دے ۔ گوہ مری ہوئی تھی آپ جب گوہ سے مخاطب ہوئے تو گوہ زندہ ہو گئی اور لبیک یا رسول اللہ ﷺ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی اور آقا کو عرض کی"محشر کے ہولناک دن کو گل گلزار بنانے والے نبی "لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ۔ اللہ کی قسم یہ حقیقت ہے کہ:
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا 
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا 
آج دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ایک ہی راستہ ہے وہ آقا کریم ﷺ کی محبت ہے۔ دین سے دوری نے ہمیں برباد کر دیا ہے آج امت کو امت بننا ہے۔ دنیا کے مسلمانوں کو اپنے دل میں عشق مصطفی ﷺ کے چراغ جلانے پڑینگے اور جب دل خوف خدا اور عشق رسول ﷺ سے منو ّر ہو جائیں گے تو عالم اسلام درست فیصلے کرنے میں ڈر اور خوف محسوس نہیں کریگا۔ یقین جانیں انسان دلیر ہی اس وقت ہوتا ہے جب سینے میں حضور ﷺ کی محبت ہوتی ہے۔ تمام عاشقان رسول ﷺ کو عید میلاد النبی ﷺ کی کی خوشیاں مبارک ہوں بیشک یہ وہ عید ہے جس کے طفیل سب عیدیں نصیب ہوئی ہیں۔ آج وہ مبارک دن ہے جس دن کائنات میں :
انوکھا نرالاوہ ذیشان آیا 
سارے رسولوں کا سُلطان آیا
سب خوشیاں منائو حضور ﷺ آگئے ہیں 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن