میرے عزیز ترین دوست و ہمراز ڈاکٹر اجمل نیازی گزشتہ دو سال سے صاحبِ فراش تھے اور میں ان کی عیادت کو نہ پہنچ پانے کی شرمندگی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ان سے ملاقات کا موقع ڈھونڈ رہا تھا۔ محترمہ صوبیہ خاں نیازی نے ایک دن مجھے آفس سے ان کے گھر لے جانے کا پروگرام طے بھی کر لیا مگر شومئی قسمت سے یہ پروگرام بھی پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی کی علالت نے ان کے گلے کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور ان کی شگفتہ آواز ان کے سینے میں ہی دب کر رہ گئی ، کئی بار ان سے ٹیلی فون پر بات کی کوشش کی مگر ہوا کی طرح خارج ہوتی ان آواز نے سلسلۂ جنبانی آگے نہ بڑھنے دیا۔ میں خود کرونا کا شکار ہوا تو زندگی کی بے ثباتی کی حقانیت نے ڈاکٹر اجمل نیازی سے ملاقات کی مزید تڑپ پیدا کر دی۔ ان کی اہلیہ محترمہ کا شکوہ بھی مجھ تک پہنچا مگر ان کی علالت کے دوران ان سے ملاقات شائد مقدر میں نہیں لکھی تھی سو میں شرمندگی اور تاسف کے بوجھ تلے ہی دبا رہا۔
علالت کے دوران ڈاکٹر صاحب کا کالم لکھنے کا سلسلہ بھی معلق ہو گیا تھا ، میں نے کوشش کی کہ ان سے یہ سلسلہ بحال کرا سکوں ، انہوں نے اپنے دو تین شائع شدہ کالم اپ ڈیٹ کر کے مجھے بھجوا دئیے جو میں نے شامل اشاعت کر لئے مگر اس کے بعد ان کا کالم لکھنے کا سلسلہ ایسا ٹوٹا کہ دوبارہ بحال نہ ہو پایا۔ اتوار کی شب دو بجے کے قریب انہوں نے آخری ہچکی لی اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔
ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد قلندر کی یوم ولادتِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روز قبل رحلت ان کی حرمتِ رسولؐ کے لئے کٹ مرنے کی تڑپ کا زند ہ ثبوت ہے۔
ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے سفر نامۂ حج میں بھی الفاظ کی بُنت اور عقیدت مندانہ جذبات کی آمیزش کے ساتھ اپنے سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی گواہی دی۔ ان کی زبان سے بھی ہمیشہ نبی آخرالزامان حضرت محمد مصطفیؐ کے لئے عقیدت کے پھول جھڑتے تھے اور اپنے بے باک اندازِ تحریر میں نبی کریمؐ کے ساتھ قربت کے متمنی رہتے۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں حضرت محمدمصطفی ؐ کے سراپا کا بے باکانہ انداز میں نقشہ باندھا جو درحقیقت ان کی محبوبِ خدا ، رحمت اللعالمینؐ کے ساتھ بے پایاں محبت کا اظہار تھا مگر لاہور کے ایک وکیل نے ان کے خلاف توہین رسالتؐ کا مقدمہ درج کرا دیا جس نے انہیں مایوس اور پریشان کیا ، ہمارے دیرینہ دوست منصور الرحمان آفریدی ایڈووکیٹ نے اس کیس میں ان کی وکالت کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی وکیل برادری کے مدعی کو اس مقدمہ سے دستبرداری پر قائل کر لیا۔ نوائے وقت نے بھی اس کیس میں ڈاکٹر اجمل نیازی کا بھرپور ساتھ دیا اور وہ یقیناً ایک سچے عاشقِ رسولؐ کی حیثیت سے اس مقدمے میں سرخرو ہوئے۔ آج جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تڑپتی ڈاکٹر اجمل نیازی کی روح بھی نبی آخر الزمانؐ کے ساتھ عقیدت کے جذبات سے معمور ہو گی۔
میرا اور ڈاکٹر اجمل نیازی کا رشتہ ادارہ نوائے وقت میں ایک کولیگ کا ہی نہیں بلکہ توقیرو فلاحِ انسانیت کے لئے تڑپ رکھنے والے دو انسانوں کا رشتہ بھی تھا۔ وہ دکھی انسانیت کی خدمت اور انسانی معاشرے کی فلاح کے لئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتے تھے اور میں نے بھی اسی جذبے کے تحت بطور صحافی شرف انسانیت کے ساتھ اپنا بندھن باندھا ہوا تھا۔ اس سلسلہ میں میں نے سبزہ زار ویلفیئر سوسائٹی کے پلیٹ فارم پر علاقے کی بہتری اور انسانیت کی بھلائی کے لئے جو بھی جدوجہد کی ، ڈاکٹر اجمل نیازی نے اس میں اپنے قلمی جہاد کے ذریعے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے بھی اسی جذبے کے تحت ام نصرت فائونڈیشن کے نام سے ایک فلاحی تنظیم بنا رکھی تھی جبکہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کی خاطر بعض دوسری فلاحی تنظیموں کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ وہ قلم کے دھنی اور ندرتِ خیال کا شاہکار تھے۔ ان کے کالموں کا لفظ لفظ اچھوتا اور بامعنی نظر آتا تھا اور بے باکی میں وہ بعض ایسے الفاظ بھی تحریر کر جاتے جنہیں برداشت کرنے کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ محترم مجید نظامی انہیں پیار کے ساتھ ’’پگڑّ نیازی‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے تو وہ اس خطاب کو اپنے علاقے میانوالی کی عزت و توقیر سے تعبیر کرتے اور ان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا۔ ان کا کالم ’’بے نیازیاں‘‘ اشاعت سے پہلے ایڈیٹنگ کی غرض سے میرے زیر مطالعہ آتا اور ان کے بعض بے باکانہ الفاظ اور فقرے مجھے مجبوراًقطع کرنے پڑتے۔ اس پر ان کا دل کبھی کبھار آزردہ بھی ہوتا مگر وہ میرے ایڈیٹنگ کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے برادرانہ جذبات و تعلقات پر کبھی آنچ نہ آنے دیتے۔ انہیں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں صدر آصف علی زرداری کی جانب سے قومی ایوارڈ ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا تو محترم مجیدنظامی نے نوائے وقت کی جانب سے ان کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا اور کالم نگاری میں ان کے اچھوتے انداز کی ستائش کی ، وہ حساس قلمکار ہونے کے ناطے زودرنج طبیعت کے مالک تھے اور کسی کی کوئی بات انہیں گراں گزرتی تو وہ اس کے منہ پر اس کے اظہار سے گریز نہ کرتے۔ تاہم ان کی ناراضگی چند لمحات کی ہی ہوتی۔ اس مرد قلندر نے جو ادب و صحافت کے ساتھ ساتھ ایک یکتائے روزگار معلم بھی تھے‘ ان دونوں میدانوں میں اپنے ہزاروں شاگردوں کی سرپرستی کی۔ مجھے ان کے ساتھ اکادمی ادبیات کی دو انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شرکت اور قیام کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں 1994ء کی انٹرنیشنل کانفرنس میں ان کی معروف شاعر احمد فراز کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی اور انہوں نے احمد فراز کا حساب برابر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کانفرنس میں ہمیں ملک کی نامور شاعرہ پروین شاکر کے ساتھ ادبی نشستوں کا بھی موقع ملا جو ان کے ساتھ سلسلۂ جنبانی کی آخری کڑی ثابت ہوئی اور اسی سال وہ ایک ٹریفک حادثہ میں راہی ملکِ عدم ہو گئیں۔ ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی ان کے ساتھ اکادمی ادبیات والی نشستوں کا تذکرہ کرکے رنجیدہ ہو جاتے۔ اس کانفرنس کے دوران کا ایک دلچسپ منظر آج بھی میری آنکھوں میں سمویا ہوا ہے۔ ہم کانفرنس کے شام کے سیشن سے فراغت کے بعد اسلام آباد کی رات کی رونقیں دیکھنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک گرجاگھر میں مسیحیوں کی مذہبی تقریب جاری تھی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی اچانک ترنگ میں آئے اور مضبوطی کے ساتھ میرا ہاتھ تھام کر اس تقریب میں جا گھسے اور مسیحیوں کی عبادت والا اندازہ اپنا لیا۔ میں نے ان سے استفسار کیا کہ انہیں یہ شوق کیوں چرایا تو بے ساختہ انداز میں بولے کہ ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے بھی تو کوئی کردار ادا کرنا چاہئے۔
اکادمی ادبیات کی دوسری کانفرنس کا انعقاد بھی پیپلزپارٹی کے دور میں ہی ہوا تھا جس نے عطاء الحق قاسمی صاحب کو اکادمی کے چیئرمین کے منصب سے ہٹایا اور اکادمی کے نئے چیئرمین نے انہیں کانفرنس میں مدعو کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔ عطاء الحق قاسمی صاحب وہاں پہنچ گئے جنہیں ہال کے اندر داخل نہ ہونے دیا گیا تو ڈاکٹر اجمل نیازی اور میرے سمیت اس کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے دوسرے شاعر‘ ادیب حضرات بائیکاٹ کرکے باہر آگئے اور اکادمی کی بلڈنگ کے باہر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے جنہوں نے عطاء الحق قاسمی صاحب کی عزت افزائی کی اور انہیں پروٹوکول کے ساتھ احتجاجی شاعروں‘ ادیبوں سمیت ہال کے اندر لانے کی اکادمی ادبیات کی انتظامیہ کو ہدایت کی مگر اکادمی کی انتظامیہ کے رویئے سے شاکی عطاء الحق قاسمی نے ہال کے اندر جانے سے گریز کیا۔ چنانچہ ڈاکٹر اجمل نیازی اور دوسرے احتجاجی شاعر‘ ادیب بھی ان کے مؤقف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی فی الواقع ایسی باغ و بہار شخصیت تھے جن کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہیں کہ…؎
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں‘ نایاب ہیں ہم
آج ہم انہیں بھاری دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ منوں مٹی کے نیچے دبا آئے ہیں اور شعیب بن عزیز کا یہ شعر دست دعا کا مرکز بن گیا ہے کہ؎
کوئی دستِ اجل کو بڑھ کے روکے
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
خدا حافظ پگڑ نیازی‘ خدا حافظ…؎
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ‘ کل ہماری باری ہے