رحمۃ للعالمین حضرت نبی ٔ آخر الزمان‘ سرور کائنات‘ محسن انسانیت‘ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادتِ باسعادت آج 19؍ اکتوبر کو پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ مسلمانانِ عالم 12 ربیع الاول کا دن اپنے نبی ٔ پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کے اظہار کیلئے عیدمیلاالنبی کی صورت میں مناتے ہیں اور اس دن اپنے اپنے انداز میں جشن منا کر اور خوشیوں کا اہتمام کرکے رحمۃ للعالمین صلی للہ علیہ وسلم کے حضور سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج اسی مناسبت سے فرزندانِ توحید اور غلامان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملک بھر میں محافل میلاد منعقد کرکے اور گلیوں‘ بازاروں‘ شاہراہوں‘ مساجد اور گھروں کو برقی قمقموں‘ سبز جھنڈوں‘ جھنڈیوں اور روضۂ رسولؐ کے ماڈلز کے ساتھ سجا کر عید میلاالنبی منائیں گے۔ آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے حضرت نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے خصوصی اشاعتوں اور پروگراموں کا اہتمام کیا ہے جبکہ سرکاری و نجی سطح پر جشنِ میلادالنبی کی خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جن میں حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کٹ مرنے کے جذبے کا اعادہ کیا جائیگا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس بار شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اجاگر کرنے اور تحفظِ ختم نبوتؐ کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ان اقدامات کیلئے خصوصی دلچسپی لی جس کی روشنی میںوزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے رحمۃ للعالمینؐ اتھارٹی قائم کی جس کا مقصد حضرت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگیاں گزارنے کی ترغیب دینا اور عقیدۂ ختم نبوتؐ پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہے۔ اسی تناظر میں پنجاب حکومت کی جانب سے رحمۃ للعالمینؐ سکالرشپ پروگرام کا بھی اجرأ کیا گیا اور عشرۂ شانِ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کرکے سرکاری سطح پر یہ عشرہ منایا گیا۔ اسی سلسلہ میں آج ’’میرا پیغمبر عظیم تر ہے‘‘ کے عنوان سے حکومت پنجاب کے زیراہتمام رحمۃ للعالمینؐ عالمی مشائخ و علماء کانفرنس کا انعقاد صبح دس بجے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ہو رہا ہے۔
ہنودو یہود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ پر مبنی الحادی قوتوں اور شاتمان رسولؐ کی جانب سے تو رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ کبھی گستاخانہ خاکوں اور کلمات کے ذریعے اور کبھی انکے نبی ٔ آخر الزمان ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدۂ ختم نبوت کو چیلنج کرنیوالے ملعون قادیانیوں کی سرپرستی کرکے مسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح کئے جاتے ہیں۔ دو سال قبل سال عید میلادالنبی کے موقع پر بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا عاجلانہ فیصلہ صادر کیا جس کا مقصد شمعٔ رسالت مآب کے پروانوں کے جذبات مجروح کرنا اور ان میں اشتعال پیدا کرکے مسلمانوں پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے مذموم مقاصد کی تکمیل تھا اور ہندو انتہاء پسند مودی سرکار آج بھی اسی ایجنڈے پر گامزن ہے جبکہ گزشتہ سال ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم والے مقدس مہینے ربیع الاول کے آغاز ہی میں فرانس کے صدر میکرون نے مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی ایک گھنائونی سازش کے تحت فرانسیسی جریدے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو سراہتے ہوئے یہ خاکے دیواروں پر آویزاں اور چسپاں کرنے کی بھی اجازت دے دی جس کیخلاف پوری مسلم برادری ہی نہیں سکھوں اور پاکستان کی دوسری اقلیتوں کے جذبات بھی مشتعل ہوئے اور فرانسیسی صدر کی اس جنونیت کیخلاف مسلم دنیا میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ اسلامیان پاکستان کی جانب سے میکرون کی اس حرکت کیخلاف سرکاری اور نجی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں نے مذمتی قراردادیں منظور کیںاور وزیراعظم عمران خان نے مسلم سربراہان کو خط لکھ کر ان سے اسلامو فوبیا کیخلاف متحد ہونے کی اپیل کی اور عالمی قیادتوں اور اداروں سے مسلمانوں کو برابر کی عزت دینے کا تقاضا کیا۔ اسی طرح ترک صدر اردوان نے بھی فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے شانِ رسالت مآب ؐ میں الحادی قوتوں کی جانب سے ہونیوالی گستاخیوں کے توڑ کیلئے اتحاد امت پر زور دیا ۔
ذاتِ باری تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کیلئے ہدایت کا آخری سرچشمہ بنا کر مبعوث فرمایا۔ ۔ حضور نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت انسانی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز اور ایک نئی جہت کا تعین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اور بعد کے زمانوں کا تقابل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کلیتاً ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ ایک ایسا دور جس میں شعور، آگہی، تہذیب، کلچر اور اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ، قیام اور استحکام کے وہ نظائر ملتے ہیں جن کا نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل وجود نہ تھا بلکہ اْن کا تصور بھی مفقود تھا۔ یہ سب ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ازلی اور ابدی فیضان تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کے ذریعے عالم انسانیت میں جاری و ساری ہوا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے رہنمائی اور اخذ فیض کے جو مناہج بطور امت ہمیں اپنانے چاہئیں تھے وہ اپنائے نہ جا سکے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جو ایک زمانہ فشاں ہوا اور خلافت راشدہ میں اسلامی مملکت کی حدود توسیع پذیر ہوئیں‘ بعد میں نہ صرف یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا بلکہ یہ حدود بھی محدود ہونے لگیں۔ مسلمانوں کا دنیا میں طوطی انکے اتحاد و یگانگت کے باعث بولتا تھا۔ امہ انتشار کا شکار ہوئی تو زوال شروع ہو گیا۔ پھر کہیں غرناطہ، کہیں بغداد اور کہیں ڈھاکہ فال ہونے لگے اور کہیں کشمیری‘ فلسطینی اور روہنگیا مسلمانوں پر طاغوتی طاقتوں کی افتاد ٹوٹنے لگی۔ آج اہل اسلام شدید مصائب و مشکلات سے دو چار ہیں۔ کس کو دوش دیا جائے‘ امتِ مسلمہ میں ہی نہ صرف نفاق و انتشار ہے بلکہ باہمی ناچاقیوںکی وجہ سے مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ مسلم ممالک ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے ہیں۔ آپس میں خونریز جنگیں زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر رہی ہیں۔ 57 اسلامی ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر موجود تو ہیں مگر نہ صرف متحد نہیں بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں اور فرقہ واریت کی لعنت نے مسلم برادرہڈ کے آفاقی جذبے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کے اس انتشار اور دشمنی پر مبنی رویوں سے سامراج کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں آسانی ہو رہی ہے۔ وسائل اور افرادی قوت سے مسلم ممالک مالا مال ہیں۔ بہترین فوج کی بات کی جائے تو یہ اعزاز پاکستان کے پاس ہے جس کے فوجی دستوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی مشاقی کی دھاک بٹھائی ہے۔ ۔ پاکستان ہی مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسی طرح ترکی اور ایران کی افواج دنیا کی ماہر ترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ مسلم افواج کے پاس جذبہ شہادت ان کا طرۂ امتیاز ہے مگر یہ سب کچھ ہوتے بھی مسلمان پستی کا شکار ہیں۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر حل ہونے میں نہیں آ رہے تھے کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جانے لگے اور پھر مسلم خلیجی ریاستیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہو گئیں جس سے امتِ واحدہ کا تصور پارہ پارہ ہوتا نظر آیا۔ اب ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ آر ایس ایس کی ترجمان بھارت کی مودی سرکار نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں جو پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرچکی ہے اور آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر بھی شب خون مارنے کی گھنائونی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار کے ایماء پر ہی بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا مذہبی منافرت پھیلانے والا فیصلہ صادر کیا اور بھارتی پارلیمنٹ نے اپنے آئین کی دفعات 370‘ اور 35اے کو حذف کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کا مکمل ساتھ دیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطے کے حصول کی جدوجہد اس خطے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے کی تھی اور دو قومی نظریے کے تحت تشکیل پانے والے اس ملک خداداد کو محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان پر قران مجید کی شکل میں نازل کئے گئے احکام خداوندی کی روشنی میں ایک مثالی اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری معاشرہ کے قالب میں ڈھالنا ہی مقصود تھا۔وزیراعظم عمران خان بھی اسی تناظر میں پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے متمنی ہیں۔ تاہم پٹرولیم مصنوعات ‘ بجلی‘ گیس اور دوسری اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں حکومتی اقدامات کے باعث آئے روز اضافہ نے وزیراعظم کے ریاست مدینہ کے تصور کو گہنا دیا ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا تھا کہ ہمارا دستور خدا وند کریم کی نازل کردہ الہامی کتاب قرآن مجید کی شکل میں پہلے سے موجود ہے جو مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار پایا۔ ختم نبوتؐ پر ایمان شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔ بے شک غیرمسلم اقلیتوں کو آئین کے تحت تمام حقوق حاصل ہیں مگر خود کو مسلمان ظاہر کرکے کسی ملعون کو خدا کا نبی (نعوذباللہ) تسلیم کرنیوالوں کی مسلم معاشرے میں بطور مسلمان کبھی قبولیت نہیں ہو سکتی۔ اس فتنے کا دوبارہ سر اٹھانا ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔ ہمیں بہرصورت اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنا ہے اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آنے دینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ خدا ہمیں اپنے دینِ کامل پر کاربند رہنے اور اپنے پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و تقدس پر کوئی ہلکی سی بھی آنچ نہ آنے دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے رکھے۔