تین چوتھائی اکثریت لے لی 

Oct 19, 2022

عبداللہ طارق سہیل


ہر طرف ضمنی انتخابات کا چرچا ہے اور ابھی کچھ دن اور بھی رہے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنما دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ دعویٰ پی ٹی آئی کا ہو اور اس پر ایمان نہ لایا جائے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، کون کافر ہے جو مشرک ہونے کا ٹھپہ خود پر لگوائے گا۔ آٹھ سیٹیں پی ٹی آئی نے چھوڑیں، ان میں سے چھ جیت لیں، دو ہار دیں۔ یعنی تین چوتھائی کی اکثریت لے لی، یوں مقبولیت بڑھنے کا دعویٰ درست ہونے کا ثبوت مل گیا۔ مسلم لیگ ن نے صوبائی کی تین سیٹیں چھوڑیں، ہاں دو جیت جاتی، ایک ہارتی تو وہ بھی یہ کہہ سکتی تھی کہ ہم نے دوتہائی سیٹیں جیت لیں، ہماری مقبولیت بڑھ گئی۔ 
اگلا منظرنامہ مقبولیت بڑھنے کا اگلے ضمنی الیکشن میں سامنے آئے گا۔ خان صاحب نے چھ سیٹیں اپنے نام کیں، ایک ان کے پاس پہلے ہی سے ہے یعنی چھ پر ضمنی الیکشن ہو گا۔ دو پر وہ ہار جائیں گے، چار جیت لیں گے۔ یعنی دوتہائی اکثریت حاصل کر لیں گے، جس کے بعد پی ٹی آئی پھر دعویٰ کرے گی کہ اس کی مقبولیت بڑھ گئی، اس نے دوتہائی اکثریت لے لی۔ 
ادھر قومی ا سمبلی میں حکمران اتحاد کی دو سیٹیں بڑھ گئیں۔ لیکن بڑھنے کا الزام سارے کا سارا پیپلز پارٹی پر ہے، واللہ، مسلم لیگ برابر نردوش ہے، کوئی اس پر انگلی مت اٹھائے۔ 
_________
انتخابی مہم کا دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ اس میں کہیں نظر نہیں آئی۔ خان نے درجنوں جلسے کئے، پس چلمن ”بخارا“ (نظارہ) مارتی رہی۔ ماجرا کچھ یوں بتایا گیا ہے کہ جاسوسی والے سویلین ادارے نے حکومت اور پارٹی قیادت کو بتا دیا تھا کہ ایک صوبائی سیٹ کے سوا باقی کہیں پر امید نہیں۔ چنانچہ مسلم لیگ نے پھر یہی مناسب سمجھا کہ جب جیتنا ہی نہیں ہے تو سرمایہ اور وقت ضائع کرنے کا فائدہ کیا۔ ضمنی وقت کسی اور کارآمد چٹکلہ دریافت کرنے پر کیوں نہ لگایا جائے، یعنی کہ، مثال کے طور پر بجلی مزید مہنگی کرنے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈا جائے۔ چنانچہ اس نے انتخابی مہم کا بائیکاٹ کر دیا۔ 
سیاست کا ناقابل ترمیم و تنسیخ اصول یہ چلا آ رہا ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں، عوام سے رابطہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ گاندھی قائد اعظم سے لے کر اندرا، بھٹو تک یہی سب نے کیا۔ مسلم لیگ نے آئین سیاست کی اس شق کو یکسر منسوخ کر دیا۔ 
لوگ کہتے ہیں، زرداری کی سیاست پر پی ایچ ڈی ہونا چاہیے۔ میں کہتا ہوں، پی ایچ ڈی مسلم لیگ کی سیاست پر ہونا چاہیے۔ ویسے لیگ کے امیدوار ”کلوز مارجن“ سے ہارے۔ یعنی لیگی قیادت کے بائیکاٹ کے باوجود ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے لیگی امیدواروں کو ووٹ دیا۔ ان نامعقول ووٹروں کے خلاف کچھ کارروائی واجب ہے تاکہ وہ اگلے الیکشن میں اس حماقت سے باز رہیں۔ 
_________
امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان کے خطرناک ملک اور ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے صدر جوبائیڈن کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے پاکستانی عزم پر اعتماد ہے اور مضبوط و خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔ 
بائیڈن کے بیان پر پاکستان کا ردعمل نہایت سخت اور مضبوط تھا، بالخصوص وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے نبض پر بالکل ٹھیک ہاتھ رکھا۔ مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کا ردعمل بھی واضح تھا ۔ جس پر امریکہ نے یہ وضاحت کر کے معاملہ صاف کر دیا۔ ویسے بھی بائیڈن کے بیان میں ”ہو سکتا ہے“ کا رنگ تھا، یعنی یہ گنجائش رکھی گئی تھی کہ بیان واپس بھی لینا پڑ سکتا ہے۔ 
بات صاف ہو گئی لیکن ”نفس مضمون“ بدستور قائم ہے۔ جب ایک ”مقبول“ لیڈر جلسہ ہائے عام میں بار بار یہ بات کرے کہ ”ان“ لوگوں کے ہاتھ میں ایٹمی پروگرام محفوظ نہیں جو بار بار حکومتیں بنانے گرانے میں لگے رہتے ہیں تو پھر امریکہ یا کوئی دوسرا جو بھی سمجھے، سمجھ سکتا ہے، اس سے گلہ کیسا۔ 
رہی پاکستان کے خطرناک ملک ہونے کی بات تو اس کے ذمہ دار بھی ہم ہیں، کوئی اور نہیں۔ پختونخواہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، بھلے اس کی تفصیل ہمارے میڈیا میں نہ آئے، امریکہ تو بے خبر نہیں۔ نہ ہی بھارت اور نہ ہی کوئی اور ایسا ملک جس کے مفادات خطے میں موجود ہیں۔ پختونخواہ میں دہشت گردوں سے دوستی، تعاون اور پرویز مشرف کی ”ایک باقیات“ کہلائے جانے والے بیرسٹر کے ذریعے مذاکرات کوئی خفیہ کہانی تو ہے نہیں۔ 
_________
جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کسی کو کراچی کے مسائل سے دلچسپی نہیں، کراچی کے بارے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔ 
کراچی لگ بھگ تین کروڑ آبادی کا شہر ہے، شہر کہاں، پورا ملک ہے اور کراچی کی ایک خصوصیت سب عالم میں ممتاز ہے کہ یہ دنیا کا واحد بڑا شہر ہے جہاں کوئی شہری سہولت میسر نہیں۔ نہ پانی ، نہ گیس، نہ سیوریج نہ ٹرانسپورٹ نہ امن و امان نہ قاضی نہ قضاة دہائی ہی دہائی ہے ،شنوائی کوئی نہیں اور اب تو لوگ دہائی دینا بھی بھول چکے ۔ عقل حیراں ہے کہ اس شہر کو کیا کہیئے، شہر خموشاں کیوں نہ کہیئے۔
کراچی میں ملک بھر کی سب قومیتوں کے لوگ ہیں۔ خاص طور سے سوات آپریشن کے بعد پختون بھائی لاکھوں کے حساب سے آئے لیکن شہر کی اکثریت اب بھی اردو بولنے والوں پر مشتمل ہے اور کئی سال سے یہ اکثریت انتخابی عمل سے لاتعلق ہو گئی ہے۔ یہ خطرناک ماجرا ہے یا نہیں، لگتا یہی ہے کہ ذرا بھی خطرناک نہیں۔ خطرناک ہوتا تو کوئی نہ کوئی نوٹس ضرور لیتا۔ 
حافظ نسیم الرحمن جتنے چاہے مطالبے کر لیں، کوئی پورا نہیں ہونے والا۔ سب اسے غیروں کا شہر سمجھتے ہیں۔ حافظ صاحب البتہ کوئی عملی مطالبہ کریں تو پورا ہونے کا امکان ہے۔ مثلاً وہ یہی مطالبہ کر دیں کہ شہر کا نام بدل ڈالا جائے۔ کراچی سے کچرا کنڈی کر دیا جائے، امید ہے جلد تسلیم کر لیا جائے گا۔ کچرا کنڈی کیسا میوزیکل ، نغماتی نام ہے، مقبول عام ہو گا، جگ بھر میں نام ہو گا۔ 
_________
جنگی ٹیکنالوجی کتنی ترقی کر گئی، اس کا اندازہ امریکہ کے نئے ٹینک شکن میزائلوں ایف جی ایم 148 سے ہوتا ہے۔ یوکرائن روس کے خلاف یہ میزائل استعمال کر رہا ہے۔ اسے بس داغنا پڑتا ہے، ٹینک کو یہ خود ڈھونڈ لیتا ہے اور پورا ٹینک ایک نہیں، آدھے سیکنڈ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔ یوکرائن میں جو بھی ٹینک داخل ہوا، تباہ ہو کر رہا یہاں تک کہ روس کو ٹینکوں کا کال پڑ گیا، مجبوراً اس نے ڈرون حملے شروع کئے۔ لیکن بے کار۔ تین روز پہلے روس نے ایک ہی ھلّے میں 43 ڈرون یوکرائن پر چلا دئیے، یوکرائن کے دفاعی نظام نے 37 تباہ کر دئیے، صرف چھ بچ کر جا سکے۔ اب امریکہ یوکرائن کو جدید ترین فضائی دفاع کا نظام دے رہا ہے۔ 
پیوٹن جنگ ہار چکا ہے لیکن مان نہیں رہا۔ یوکرائن نے ایسی بری مار روس کو ماری ہے کہ پیوٹن کو یقین ہی نہیں آ رہا۔ یقین آئے تو ہار مانے۔ تب تک ایٹمی جنگ کی لومڑ بھبھکیاں دیتا رہے گا۔ 

مزیدخبریں