کراچی چڑیا گھر کا 17 سالہ سفید شیر مر گیا
کوئی بھی اس خبر کو ضمنی الیکشن کے تناظر میں نہ لے۔ غیر سیاسی عینک لگا کر دیکھے ۔ یہاں شیر سے مراد کراچی چڑیا گھر میں موجود 17 سالہ سفید شیر تھاجو بالکل اصلی تھا اور یہ سفید رنگ کے شیر نایاب ہوتے ہیں۔ کراچی والے چڑیا گھر میں اس شیر کو دیکھنے جاتے تھے کہ قدرت کا کیا خوبصورت شاہکار تھا جوگزشتہ روز مر گیا۔ اب لوگ وہاں کس ’’بلا‘‘ کو دیکھیں گے۔ یہ لفظ ’’بلا‘‘ ہے کھیلنے والا بلا نہ سمجھا جائے۔ ایک تو ہمیں بیماری ہے کہ ہم فوراً بعض الفاظ کو سیاسی تناظر میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویسے بات بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ ضمنی الیکشن میں بلے نے شیر سمیت ، تیر ہو یا لالٹین ، پتنگ ہو یا کرین سب کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام غیر سیاسی بات کو بھی مزہ لینے کیلئے سیاسی رنگ میں لیتے ہیں۔ بہرحال اب ہمارے کراچی کے چڑیا گھر کے لیے سفید نہ سہی عام بنگالی، انڈین یا افریقی ٹائیگر ہی منگوایا جا سکتا ہے تاکہ خانہ پری ہو۔ مگر صورتحال اس کے برعکس حقیقت دکھائی دیتی ہے جو جانور مر گیا اس کی جگہ خالی ہی رہتی ہے۔ لاہور ہو یا کراچی یا کسی اور شہر میں قائم چڑیا گھر کے سارے فنڈز جانوروں سے زیادہ وہاں متعین عملہ اور افسر کھا جاتے ہیں۔ جانور بے چارے بھوک اور بیماری سے مر جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں مہنگے نایاب جانور کون خریدے ۔ اس لیے مرنے والے جانوروں کے پنجرے مدتوں خالی نظر آتے ہیں تاآنکہ ان میں کوئی دوسرا جانور نہ رکھا جائے۔ ویسے بھی سفید شیر اب کہاں سے لایا جائے۔ یہاں تو ابھی تک باہر جانے والا سیاسی شیر واپس نہیں آ سکا۔
٭٭٭٭٭
وفاق پنجاب کو حق نہیں دے رہا۔ مونس الٰہی
شکر ہے خدا کا کسی کو تو پنجاب کی بھی یاد آئی ورنہ گزشتہ کئی دہائیوں سے لوگ پنجاب کو لاوارث سمجھ کر اس کی سنتے ہی نہیں تھے بلکہ خود بڑے ظالم اور جابر قوم پرست رہنما پنجاب کو استعماری طاقت کہہ کر اپنی تمام ناکامیوں کا ملبہ اس پر ڈالتے پھرتے تھے۔ قوم پرستوں کی آنکھوں پر پنجاب کے خلاف جو جھوٹ کی سیاہ پٹی باندھی گئی تھی وہ ابھی تک پوری طرح اتری نہیں ہے۔ لوگ ابھی تک اپنے حقوق غصب کرنے کا الزام پنجاب پر لگاتے پھرتے ہیں حالانکہ یہ حقوق خود انہوں نے غصب کر رکھے ہیں۔ بڑا بھائی ہونے کے ناطے پنجاب نے ہمیشہ تحمل سے سب کی سنی مگر کبھی ایک حرف شکایت بھی زبان پر نہیں لایا ۔ عمران خان جو تبدیلی اور انصاف کا نعرہ لائے وہ بھی کہتے ہیں کہ سندھی اور بلوچ قوم پرستوں سے بات کر سکتا ہوں۔ اب چونکہ خیبر پی کے میں ان کی حکومت ہے اس لیے انہوں نے پشتون قوم پرستوں کی بات نہیں کی۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے پنجاب کو گندم نہ دینے کی وفاقی پالیسی پر تنقید کی تو آج مونس الٰہی نے زیادہ کھل کر کہا کہ وفاقی حکومت پنجاب کا حق نہیں دے رہی۔ لگتا ہے اب اہل پنجاب بھی بولنے لگے ہیں۔ شاید اس طرح دوسرے صوبوں کو بھی پتہ چلے کہ پنجاب کے حصے سے پانی، بجلی ، اجناس ، ترقیاتی رقوم کاٹ کر چرا کر انہیں اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ خوش ہوں مگر اس کے باوجود اس قربانی کی کوئی قدر نہیں کرتا اس پر تو
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
کہہ کر آنسو ہی بہائے گئے ہیں۔ اب لگتا ہے بند ہونٹ بھی کھلنے لگے ہیں۔
٭٭٭٭٭
نواز اور زرداری پرانے زمانے کے لوگ ہیں۔ عمران خان
تو کوئی خان صاحب سے بھی جا کر پوچھے کہ جناب آپ کون سے نئے دور کی پیداوار ہیں۔ آپ بھی ان کے ہی ہم عمر ہیں۔ بال کالے کرا کے میک اپ کرا کے جس طرح کشمش کبھی پھر انگور نہیں بن سکتا آپ بھی نوجوان یا جوان نہیں بن سکتے۔ آپ بھی پرانے زمانے کے آدمی ہیں۔ اگر آپ نئے دور کے جوان ہوتے تو ضمنی الیکشن میں 7 نشستوں پر نوجوانوں کو ٹکٹ دے کر سامنے لاتے اس طرح ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ سیاسی تربیت بھی ہو جاتی۔ مگر دیکھ لیں آپ کو تحریک انصاف میں کوئی نوجوان رہنما اپنے سوا نظر ہی نہیں آتا۔ یہی پرانے لوگوں کا المیہ ہے کہ وہ برگد کے درخت کی طرح بن جاتے ہیں جس کے سائے تلے کوئی پودا پروان نہیں چڑھتا۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کا بھی یہی حال ہے وہ قدیم دور کے رواجوں کے مطابق اپنی اپنی جماعت میں موروثیت کو پروان چڑھا کر پدرم سلطان بود والے فلسفے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ بھی تن تنہا خود کو تحریک انصاف سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور کو آگے لانے کا نہ وہ سوچتے ہیں نہ آپ۔ پھر گلہ کس سے کریں۔ کس کو نوجوانوں کا قائد سمجھیں تمام سترے بہترے خود کو ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ والی صف میں شامل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب بابے ہیں مگر بڑی چالاکی سے نوجوانوںکو ’’خزاں نہیں بہار ہوں‘‘ کا چکما دیتے پھر رہے ہیں۔ خدا ہماری نئی نسل کو ان بہروپیوں کے ہاتھوں مزید بے وقوف بننے سے بچائے ورنہ یہ سب اچھی طرح سیاست کے میدان میں دام ہمرنگ زمین بچھا چکے ہیں جس میں پھنسنے والے پرندے پھڑ پھڑانے کے باوجود نکل نہیں پاتے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان بے قصور، موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ممالک قرض معافی کا سوچیں۔ جمائما
پاکستان کی سابق بہو جمائما گولڈ سمتھ کو لگتا ہے آج بھی پاکستان سے محبت ہے۔ انہیں بھی تو پاکستانیوں نے بہت محبت دی۔ جمائما نے عمران خان کی محبت میں اسلام بھی قبول کیا اورعمران خان سے شادی کی پھر پاکستان آ گئیں۔ یہاں ہر سطح پر اس کی پذیرائی ہوئی۔ بعد میں اس کے ہاں دو بیٹے بھی ہوئے۔ مگر نجانے کیوں عمران خان نے اسے طلاق دی یا وہ خود طلاق لے کر واپس لندن چلی گئی اور جمائما خان سے پھر جمائما گولڈ سمتھ بن گئی۔ بچے ابھی تک انہی کے پاس ہیں۔ وہ گاہے بگاہے پاکستان کے حق میں بیان دیتی رہتی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ابھی بھی پاکستان کی محبت زندہ ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے ترقی یافتہ ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنی اس سنگین غلطی کا اعتراف پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے معاف کر کے کریں۔ حقیقت بھی یہی ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی ۔ کیونکہ پاکستان کا موسمیاتی بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔ مگر مغربی دنیا کیا اس بات پر کان دھرے گی کبھی نہیں۔ آج پاکستان بدترین سیلابی تباہ کاریوں کا شکار ہے اس کی ذمہ داری ان ممالک پر ہے جو اس تباہی میں حصہ دار ہیں۔ وہ غلطی کی تلافی کے طور پر تمام قرضے معاف نہیں کر سکتے تو کم از کم آدھے ضرور کر دیں تاکہ پاکستان کی معاشی اور مالی مشکلات میں کمی آئے اوریہ ممالک تین کروڑ سیلاب متاثرین کی بحالی میں بھی پاکستان کی دل کھول کر مدد کریں۔