پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاکستان کی انتخابی تاریخ کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے -انہوں نے ضمنی انتخابات میں سات قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑا ہے اور قومی اسمبلی کے چھ حلقوں میں واضح کامیابی حاصل کر لی ہے-اس انتخابی کامیابی کے بعد وہ کسی بھی انتخابی حلقے میں نمائیندگی نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے- عمران خان کا ضمنی انتخابات لڑنے کا فیصلہ دانشمندانہ حکیمانہ یا مہم جویانہ تھا اس کا فیصلہ ہم آنے والے مورخ پر چھوڑتے ہیں- ان ضمنی انتخابات پر مقروض ملک کے کروڑوں روپے خرچ ہوگئے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہماری سیاست اور جمہوریت کس قدر بے حس ہو چکی ہے-
تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے فوری انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرانے کے لیے یہ ضمنی انتخابات لڑے ہیں جو ان کی احتجاجی تحریک کی حکمت عملی کا حصہ ہے-پاکستان کے عوام نے بھی اس انتخابی کھیل تماشے میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا ہے تاکہ اپنے محبوب لیڈر کی تسکین کا سبب بن سکیں- انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں پاکستان کے عوام نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ موجودہ "امپورٹڈ حکومت" کو تسلیم نہیں کرتے- ان انتخابات کے نتائج فیصلہ سازوں کے لیے واضح پیغام ہیں کہ وہ عوام کی تمناؤں اور آرزؤں کو سامنے رکھتے ہوئے فوری انتخابات کا فیصلہ کریں ورنہ عوام مجبور ہوں گے کہ وہ دوسرا آپشن استعمال کریں-عمران خان نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ ضمنی انتخابات ایک ریفرنڈم ہیں جس میں عوام نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ موجودہ حالات سے خوش نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو فوری طور پر رخصت کیا جائے اور شفاف انتخابات کے ذریعے ایسی حکومت قائم کی جائے جس کو عوام کا مینڈیٹ حاصل ہو-
عمران خان نے کراچی کورنگی میں ایم کیو ایم کے امیدوار سید نیر رضا کو 32 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دی ہے ایم کیو ایم اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے- عمران خان کراچی ملیر کے انتخابی حلقے سے پی پی پی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ سے دس ہزار ووٹوں سے ہار گئے ہیں-عمران خان نے اس انتخابی حلقے سے اپنی شکست کو قبول نہیں کیا اور سندھ حکومت اور سندھ الیکشن کمشن پر دھاندلی کرانے کا الزام لگایا ہے-
عمران خان نے پشاور کے انتخابی حلقے سے اے این پی کے امیدوار غلام احمد بلور کو 25 ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے-حیران کن بات یہ ہے کہ چند ماہ پہلے لوکل باڈیز کے انتخابات ہوئے تھے جن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو پشاور میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جمعیت علماء اسلام کا امیدوار پشاور کا میئر منتخب ہو گیا تھا-چارسدہ اے این پی کا مضبوط قلعہ رہا ہے عمران خان نے چارسدہ کے انتخابی حلقے سے اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان کو دس ہزار ووٹوں سے شکست دے دی ہے-
عمران خان نے مردان کے انتخابی حلقے سے جمعیت علماء اسلام کے امیدوار مولانا قاسم کو آٹھ ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے اور فیصل آباد سے مسلم لیگ نون کے امیدوار عابدشیرعلی کو چوبیس ہزار ووٹوں کی برتری سے ہرا دیا ہے- انہوں نے ننکانہ سے مسلم لیگ نون کی امیدوار شذرہ منصب علی کو 12 ہزار ووٹوں سے شکست دی ہے- عمران خان کی انتخابی کامیابی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے-
ملتان کے قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ وہاں پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے موسیٰ علی گیلانی کا مقابلہ سابق وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کی دختر مہر بانو سے تھا اس انتخابی حلقے میں علی موسی گیلانی نے مہر بانو کو 25 ہزار ووٹوں سے شکست دے دی جو تحریک انصاف کے لیڈروں کے لیے ایک سرپرائز ہے-اس انتخابی حلقے میں اگر بہتر فیصلہ سازی کی جاتی تو تحریک انصاف کو شاید ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑتا-
چند ماہ پہلے شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے نے ملتان سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیتا تھا اس کے بعد ان کی بیٹی کو پارٹی کا امیدوار بنانے کا فیصلہ کارکنوں نے پسند نہیں کیا - یوسف رضا گیلانی انتخابی سیاست کے پرانے ماہر کھلاڑی ہیں انہوں نے تحریک انصاف کے اس متنازعہ فیصلے سے مکمل فائدہ اٹھایا اور پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے ووٹ اپنے بیٹے کے لئے پول کرانے میں کامیاب رہے- شاہ محمود قریشی نے اپنی سیاسی زندگی کا سخت ترین انتخاب لڑا شب و روز محنت کر کے 82 ہزار ووٹ حاصل کیے- شیخوپورہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ سے مسلم لیگ نون کے امیدوار افتخار احمد نے تحریک انصاف کے امیدوار محمد ابوبکر کو تین ہزار ووٹوں سے ہرا دیا ہے جبکہ خانیوال سے تحریک انصاف کے امیدوار فیصل خان نیازی نے مسلم لیگ نون کے امیدوار چوہدری ضیاء الرحمان کو چودہ ہزار ووٹوں سے شکست دے دی ہے - بہاولپور کے صوبائی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ملک مظفر خان نے مسلم لیگ نون کے امیدوار امان اللہ ستار کو بارہ ہزار ووٹوں سے ہرا دیا ہے-ضمنی انتخابات میں شاندار فتح کے بعد تحریک انصاف کی بارگیننگ پوزیشن مضبوط ہوئی ہے-پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ریاست کے مقتدر ادارے عوام کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں-کیونکہ ریاست کے اصل مالک اور آقا پاکستان کے عوام ہی ہیں ان کے اعتماد اور پشت پناہی کے بغیر ریاست کے مقتدر ادارے قومی سلامتی اور آزادی کا دفاع نہیں کر سکتے-
موجودہ اتحادی حکومت چند ماہ پہلے بھی پنجاب کے ضمنی انتخابات ہار چکی ہے-حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی واضح کامیابی کے بعد اتحادی حکومت کا زیادہ دیر تک چلنا ممکن نہیں رہا-موجودہ اتحادی حکومت کے وزیر اعظم کا تعلق چونکہ مسلم لیگ نون سے ہے اس لیے مشکل معاشی فیصلوں اور کمر توڑ مہنگائی کے اثرات مسلم لیگ نون پر ہی پڑ رہے ہیں- انتخابات جب بھی ہوں تحریک انصاف کا مقابلہ سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ نون کے امیدواروں سے ہی ہوگا-
تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اسے روکنا آسان کام نہیں ہے-مسلم لیگ نون کے لیڈروں کا تاثر یہ ہے کہ اگر اگلے انتخابات سات آٹھ ماہ کے بعد ہوں تو انتخابی ماحول ان کے حق میں ساز گار ہو سکتا ہے- میاں نواز شریف اور مریم نواز کی قیادت میں انتخابی مہم سے مسلم لیگ کی کامیابی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں-
ضمنی انتخابات کا سبق یہ ہے کہ تحریک انصاف کا سیاسی سورج معجزانہ طور پر آب و تاب کے ساتھ چمک اٹھا ہے اس کی روشنی اب ماند پڑنے والی نہیں ہے-عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسی ماہ کے آخر تک کسی بھی وقت لانگ مارچ کی کال دیں گے- ضمنی انتخابات کے حوصلہ افزاء نتائج سے عمران خان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے- ان کا یہ یقین محکم ہو چکا کہ مزید چھ سات ماہ بھی گزر جائیں تو اتحادی جماعتیں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گی کیونکہ معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے جائیں گے- عوام کے مصائب اور مشکلات میں اضافہ ہو گا اور اتحادی جماعتوں کا سیاسی گراف مزید نیچے آئے گا- قومی اسمبلی میں اتحادی حکومت کی برتری میں دو نشستوں کا اضافہ ہو گیا ہے-
٭…٭…٭
ضمنی انتخابات کا حاصل، لاحاصل
Oct 19, 2022