عالم تمام ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ہے


ایک سیاسی تحریک جس طرح موج بلاخیزکی طرح اٹھتی ہے اور اردگردکے سبھی خاشاک کو بہاتی چلی جاتی ہے۔ادبی تحریک بھی اسی طرح اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کا انداز عام طور پرسردیوں کی دھوپ جیسا ہوتاہے جوآہستہ آہستہ ہڈیوں میں سرایت کرتی ہے۔ حلقہ ارباب ذوق ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جس کی بنیاد گذشتہ صدی کی چوتھی دہائی کے آخرمیں لاہورمیں پڑی۔اس کی مثال ایک لالہ ٔ خودروکی تھی۔لاہورمیں سیدنصیراحمدجامعی کے ہاں چندہم خیال دوست ملے، اس نشست میں مستقبل کے اہم ناول نگارنسیم حجازی نے اپنی ایک کہانی پیش کی۔یہ طے ہواکہ احباب باقاعدگی سے اس نوعیت کی محفلیں منعقدکریں گے تاکہ پرورش لوح وقلم کا یہ سلسلہ چلتا رہے۔ ابتدامیں اس کا نام ’’مجلس داستان گویاں‘‘ تجویز ہوا لیکن بعدمیں اس مجلس میں جب شعرأکی آمدکا سلسلہ شروع ہواتوبدل کراس کا نام’’حلقۂ ارباب ذوق‘‘رکھ دیا گیا۔1938ء سے 2020ء تک کا سفر کیسے طے ہوا،اسکی مثال دینا مشکل ہے۔آغازمیں قیوم نظر، شیرمحمداختراوریوسف ظفرنے حلقے کے تشکیلی سفرکو تیزگام کیا۔میراجی کی شمولیت نے اس ادبی تنظیم کو جدید مباحث سے آشنا کیا۔ لوگ شامل ہوتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ زبان وادب کی مختلف اصناف سے وابستہ کیا کیا لوگ تھے جنھوں نے حلقے کی رفاقت میں شہرت اورنیک نامی کمائی۔ان ناموں میں ناصر کاظمی، احمدمشتاق، انجم رومانی، شہرت بخاری، انتظار حسین، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ جیسے لوگوں کی ایک طویل فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ادب عالیہ میں حلقے کے داخلیت کی طرف زور دیا۔پاکستان اللہ رب العزت کی طرف سے عطا ہونیوالی ایک نعمت ہے،جب عام آدمی کے خیالات واحساسات پرمشتمل خواب ایک چھناکے کے ساتھ چکنا چور ہوئے تو حلقے کے ارباب نے اسے داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحرکہنے کی بجائے کفران نعمت قرار دیا۔ مثال کے طورپر انجم رومانی کے اشعاردیکھیے۔ان اشعار میں کس خوب صورتی کے ساتھ ایک محب وطن کا دکھ بیان کیا گیا ہے، یہ دکھ آج بھی تازہ ہے:
کیے تعمیر حریفوں نے فلک بوس محل
ہم سے بنیادبھی تعمیر کی ڈالی نہ گئی
نہ ملا پر نہ ملا رخ ترے در کا ورنہ
کون سادر تھا جہاں قوم سوالی نہ گئی
لکھی جائے گی یہ تاریخ کے اوراق میں بات
نعمت اک ہم کوملی تھی پہ سنبھالی نہ گئی
 لاہورکے بعد ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘کی شاخیں کراچی،اسلام آباد،راولپنڈی،ملتان،پشاور،فیصل آباد جیسے شہروں میں بنیں۔حلقہ ارباب ذوق کا مزاج جمہوری ہے۔اس میں ایک سیکریٹری اوراسکی معاونت کیلئے جوائنٹ سیکریٹری منتخب کیا جاتا ہے۔ اسکی بین الاقوامی شناخت یہ ہے کہ امریکا، کینیڈا، جرمنی اور دیگر ممالک میں بھی حلقہ ارباب ذوق اپنی تنقیدی مجالس، مشاعروں اور مذاکروں سے ادب وثقافت کے فروغ کیلئے کوشاں ہے،یہاں ایک ایسے شہرمیں حلقہ ارباب ذوق کے فکری تحرک کی طرف اشارہ کرنا مقصودہے جسے مجیدامجد کا شہرکہا جاتا ہے۔ مجیدامجدکا یہ شہرساہیوال علم وادب کی دنیامیں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ یہی  خطہ ہے جہاں ہڑپا کے آثارقدیمہ وادی سندھ کی گم گشتہ تہذیب کی نشان دہی کرتی ہے،اسی علاقے میں اردواورپنجابی کے عظیم شاعر حضرت فریدالدین گنج شکرؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے روحانیت کے چراغ روشن کیے۔ سیدوارث شاہ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’ہیروارث شاہ‘‘ بھی یہیں تخلیق ہوئی،انگریزی سامراج کے خلاف 1857ء میں شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک میں بھی اس علاقے کا شاندار کردار ہے جس کا مشاہدہ آج بھی مقامی شاعری کے مختلف رنگوں میں بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ملک کے دیگرشہروں کی طرح ساہیوال میں حلقہ ارباب ذوق کی شاخ کی بنیادرکھی گئی،اس کا افتتاحی اجلاس معروف شاعر غلام حسین ساجدکی صدارت میں یہاں کی قدیم درس گاہ گورنمنٹ کالج ساہیوال کے فیض احمدفیض بلاک میں منعقد ہوا،حلقہ ارباب ذوق ساہیوال کی خصوصیت یہ رہی کہ اسکے انتظامی امور نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہیں،نوجوان شاعر عدنان بشیراور راقم کی مشاورت سے کاشف حنیف، ندیم صادق،بلال اعظم،اسماعیل ریحان، عمرفاروق انشا، عبدالباسط،کاشف حباب ،اقبال آشنا، عاصم اسلم اورتصدق شیرازی جیسے نوجوان شاعر اور ادیب شہرکے یبوست زدہ علمی وادبی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کرآئے،دل کا ویران چمن ہرا بھرا ہوگیا۔ اس ادبی مجلس کی مثال آندھیوں سے لڑنے والے ایک چراغ کی تھی۔جس نے بہادری سے مشکلات کا مقابلہ کیا۔ شعر وسخن کی دنیا میں باہمی مناقشت ایک فطری عمل ہے،ہماری ادبی تاریخ اس معاصرانہ چشمک سے بھری پڑی ہے،اس موضوع پرپی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے ہیں،رسائل کے خاص نمبرشائع ہوئے ہیں،ادبی مجالس برپا کی گئیں۔ اس موقع پرحلقے کے خلاف بھی ایک ادھ آواز اٹھی لیکن وہ غیراہم تھی۔ حلقہ ارباب ذوق کے زیراہتمام تواتر سے اہم ترین پروگرام نعتیہ مشاعروں،محافل سلام،کشمیری عوام سے یک جہتی کے عنوان سے منعقد ہوئے تھے۔حلقے کومختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے جو محبتیں ملیں اسکی مثال نہیں ملتی۔پروفیسر اکرم ناصر، ڈاکٹررانی آکاش، ڈاکٹرریاض ہمدانی، امتیازبٹ اور عون الحسن غازی جیسے لوگوں کی رہنمائی میں بہت سے مسائل حل ہوئے،یہ نوزائیدہ ادبی مجلس شہرکی نمائندہ ادبی تنظیم ہے،سال بھراسکے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوئے،کرونا کی وبا کی صورت میں جب پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو حلقے نے آن لائن عالمی مشاعروں،تنقیدی اجلاسوں اور مذاکروں کی ابتدا کی۔آن لائن اجلاسوں میں اولیت کا سہرا حلقہ ارباب ذوق ساہیوال کے سرہے۔ہمارا قومی المیہ ہے کہ نئی نسل کا علم وادب سے زیادہ شغف نہیں۔علمی قحط کے اس دورمیں ہمیں نہ صرف علم ودانش کے فروغ کی ان کوششوں کی قدرکرنی چاہیے بلکہ اس کار خیرمیں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک نظم کا مختصر سا اقتباس ہے کہ:
 ڈوبتے ہوئے سورج نے کہا
 کوئی ہے جومیرے بعد روشنی کرے؟
 سبھی خاموش رہے
ایک چراغ بولا: ہاں میں کوشش کروں گا

ای پیپر دی نیشن