جمہورےت اور جمہوری رویے ؟


پاکستان اس جدےد دور مےں دنےا کا شاےد واحد ملک ہے جہاں آج بھی وڈےرہ شاہی اور جاگےرداری نظام نے سےاسی گروپوں کا بھےس بدل کر ارض پاک کے نظام کو اپنے ظالمانہ پنجوں مےں جکڑا ہوا ہے ۔ ان پنجوں کی پکڑ اس قدر مضبوط ہے کہ اس سامراج سے نجات کی کوئی راہ سجھائی نہےں دےتی ۔ اس تمام تر استبداد کے باوجود آج بھی پاکستان مےں کچھ اےسے لوگ بستے ہےں جو وطن عزےز مےں جمہورےت کا خواب دےکھتے ہےں جو پاکستان کو خود مختار اور مضبوط و مستحکم ملک کے شہری کے طور پر دیکھنے کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے اپنی کوششوں کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 پرویز مشرف کے دور کے بعد، ملک میں جمہوریت کے قیام کی راہ ہموار ہوتے دیکھ کر ، پاکستان میں حاکمیت کے پرانے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے ایک بار پھر باقاعدہ منصوبہ بندی سے ایک کھیل کا آغاز کیا گیا۔ کئی افراد اس کا آلہ کار بننے پر رضامند ہوئے ۔ آمرانہ طرز کی اسی حاکمیت کے نظام میں سیاسی جماعتوں کی جگہ ، سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی، خاندانی، علاقائی اور فرقہ واریت کی بنیادوں پر مختلف گروپ قائم ہیں جو خود کو سیاسی جماعت قرار دینے کے دعویدار ہیں۔پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان کے نظام کو تےزی سے کمزور کےا ۔ اسی صورتحال میںاپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ' پی ڈی ایم' کا قیام عمل میں آیا اور پاکستان کے مظلوم ،بے بس اور عاجز عوام کے جمہوریت کے پرانے خواب کو پھر سے قائم کر دیا گیا۔عوام ملک میں جمہوریت کے خواب کو حقیقت میں تبدیل ہونے کی امید میں مبتلا ہوئے کہ پہلی بار ملک پہ مسلط غاصبانہ حاکمیت کے ہائبرڈ نظام کو نام لے کر للکارہ گیا۔عوام پھر یہ خواب دیکھنے لگے کہ ملک میں ان کے ووٹ کو عزت ملے گی، پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل ہوگی۔
دوسری طرف ملک میں غاصبانہ حاکمیت کے ہائبرڈ نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے والوں کی طرف سے عمران خان کے ذریعے ہی آمرانہ طرز حکومت کو مضبوط تر کرنے کے اقدامات بھی شروع ہو گئے۔ خان صاحب کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے اور ' پی ڈی ایم' حکومت کے قیام کے بعد صورتحال پیدا ہو گئی کہ ملک پہ مسلط حاکمیت کے ہائبرڈ نظام کو ملک کے لئے ناگزیر ضرورت ہونا ثابت کیا جانے لگا۔حکومت ہی نہیں اپوزیشن بھی بالا تر حاکمیت سے درخواست گو بن کر رہ گئے کہ '' ہم آپ کے اچھے منیجر بن سکتے ہیں''۔یوںمحسوس ہوتا ہے کہ '' پی ڈی ایم'' نے عوام کو جمہوریت کا جو خواب دکھانے کی کوشش کی تھی، وہ ایک سراب ثابت ہو رہا ہے۔
انہی دنوں ہندوستان کی خالق سیاسی جماعت کانگریس کے صدارتی الیکشن شروع ہوئے جس میں کانگریسی آئین کے مطابق نئے صدر کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔اس سے مجھے خیال آیا کہ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جماعتوں کے آئین کا مطالعہ کیا جائے۔تینوں جماعتوں کی ویب سائٹ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن کی پارٹی ویب سائٹ پہ پارٹی کا منشور، عزم تو موجود ہے لیکن آئین ویب سائٹ پہ موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کا آئین دیکھا، تحریک انصاف کے آئین کا جائزہ لیا تو تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ان سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کے لئے آئین کی کاپی جمع کرانے کی غرض سے ہی اپنے اپنے آئین تشکیل دیئے ہیں۔یہ آئین ایسے نہیں ہیں کہ جن سے ایک سیاسی جماعت کو چلانے کے قواعد و ضوابط موجود ہوں۔ان سیاسی جماعتوں کے آئین میں، اہم ترین عہدے پارٹی سربراہ، صدر کے انتخاب سمیت کئی اہم امور میںرولز کی پیروی کی بات کی گئی لیکن وہ رولز آئین میں شامل ہی نہیں ہیں۔ تاہم آئین میں یہ ضرور لکھا گیا ہے کہ یہ رولز پارٹی انتظامیہ ضرورت کے مطابق تشکیل دے گی۔ یعنی رولز کی تیاری اور ترمیم کو بھی ایک باقاعدہ آئینی و قانونی طریقہ کار کے بجائے صوابدیدی اختیار بنا دیا گیا ہے۔
یہ صورتحال اس وقت زیادہ تکلیف دی ہو جاتی ہے کہ جب ہندوستان کی سیاسی جماعت کانگریس کے آئین کا مطالعہ کیا جائے، برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹیو پارٹی کے آئین کو پڑھا جائے جس میں آئین کے تمام لوازمات، شرائط کی سختی سے پیروی نظر آتی ہے، برطانوی اپوزیشن پارٹی لیبر پارٹی کا آئین دیکھا جائے۔یوں پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں، سیاسی جماعت کے پردے میں گروپ کی شکل میں نظر آتی ہیں جہاں پارٹی معاملات قواعد و ضوابط کے بجائے صوابدیدی اختیار ات کے طور پر چلائے جاتے ہیں۔یوں مختصر طو رپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک میں '' ووٹ کو عزت دو'' ،ملک کی پالیسیاں بنانے ، چلانے، نظام حکومت میں پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے ایسے لوازمات ، ایسی بنیادی شرائط سے ہی محروم رکھی گئی ہیں کہ جو سیاسی جماعت میں شہریوں کی شرکت کو یوں ممکن دکھاتی ہیں کہ ہر شہری خود کو ملک کا حکمران تصور کرتا ہے۔آج انٹرنےٹ کی دنےا کا دور ہے سوشل مےڈےا اےک اےسا پلےٹ فارم ہے جہاں دنےا بھر کی اچھی بری خبر اےک لمحے مےں دنےا کے اےک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے ۔ پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ جمہوری نظام کو سمجھنے کےلئے انٹرنےٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈےن کانگرےس کے ساتھ ساتھ برطانےہ کی سےاسی جماعتوں کے پارٹی آئےن کا مطالعہ کر کے اپنی جماعتوں کے آئےن کا جائزہ لےنے کے بعد اچھے اور برے کا تعےن کرےں ۔ 

ای پیپر دی نیشن