”خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے“


جابجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ھم ....قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سیاست وجمہوریت میں تنقید پالیسیوں سے اختلاف کوئی گناہ نہیں لیکن میری سیاسی جماعت مسلم لیگ ن میں پی پی 5 این اے 50 سے ڈویزن اور مرکزی قیادت تک سب کے سب تنقید کوگناہ ھی سمجھتے ہیں ۔ھم صرف اپنی تعریفوں پر خوش اور اتراتے ھیں۔ کسی ورکر کی کسی رائے پر کوئی عمل نہیں کیا تھا ۔ورکرز کی تنقید کے باوجود جن باتوں پر تنقید ھو رھی ھو اسکا نوٹس لینے کے لیئے کبھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے مقبولیت چند جھوٹ اور انہیں پھیلانے کے لئے موثر نیٹ ورک قائم کر کے حاصل کی ۔ لیگی ورکرز ایک ن اچھی میڈیا ٹیم کی ضرورت کے لئے چیخ چیخ کے ھلکان ھو گئے مگر....پی ٹی آئی دور میں مشکلات کے شکار لیگی ورکر امید کر رھے تھے کہ اپنی حکومت آئے گی تو کم از کم انکے وہ جائز کام تو ھونگے جنہیں پی ٹی آئی دور میں دانستہ روک دیا گیا تھامگر لیڈر اقتدار میں آتے ھی سنانے لگے کہ سفارش نہیں سنیں گے ، ہم نوکریاں دینے نہیں آئے،میرٹ کی خلاف ورزی نہیں ھونے دیں گے،عوام کو قربانی دینی ھو گی وغیرہ وغیرہ ۔سننے میں یہ بھاشن کانوں کو بھلے لگیں گے مگر کیا اس دور میں جب باقی تمام پارٹیاں اپنے ورکرز کو نواز رھی ھوں وہاں ن لیگ کا ورکر اپنے کسی جائز کام کے جواب میں ان بھاشنوں کو سن کر کیا محسوس کریگا؟کیا یہ کافی نہ تھا کہ آپ صرف ناجائز کاموں کے لئے انکار کی پالیسی اختیار کر لیتے مگر جائز کاموں پر تو ورکرز کی تشفی کروا دیتےِ!!پھر جب ورکر یہ دیکھتا ھے کہ بڑے لیڈر اپنے بھائی بہن بیٹے بیٹیوں کو تو کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کروانے میں کبھی نہیں ھچکچاتے مگر ورکرز کے کام کا سن کر انہیں میرٹ اورسفارش یاد آ جاتی ھے تو انکا ردعمل کیا ھونا چاھئے؟المیہ یہ ھے کہ اپنی اصلاح نہیں کرنی مگر عوامی سطح پر اپنی خامیوں کا علاج اسٹیبلشمنٹ کے سہارے میں ڈھونڈ رھے ہیں ۔ورکر اور ووٹر آپ کو بار بار اقتدار میں لاتا ھے مگر عقل پھر نہیں آئی۔یقین کیجیئے اب ھم جیسے لوگوں میں بھی لاتعلقی بڑھتی جا رھی ھے ۔کبھی پارٹی کی ھلکی سی ناکامی پر دکھی ھو جاتے تھے اب اتنی بڑی بڑی ناکامیاں بھی مضطرب نہیں کرتیں۔جب پارٹیاں اپنے ھمدردوں سے منہ پھیر لیتی ھیں تو ھمدرد بھی لاتعلق ھو جاتے ھیں۔
  (ملک محمد امین، مسلم لیگ ن یو سی جلوال جنڈ03008323245 )

ای پیپر دی نیشن