سنتے آئے ہیں کہ کوئی اقوام متحدہ بھی ہے، سنتے آئے ہیں کہ وہاں دنیا کو درپیش مسائل کا حل نکلتا ہے، سنتے آئے ہیں کہ یہ ادارہ دنیا میں ہر جگہ رنگ و نسل، قومیت، مذہب اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہو کر کام کرتا ہے، سنتے آئے ہیں کہ یہاں سب برابر ہیں، سنتے آئے ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانوں پر ظلم ہو یا انسان مشکلات کا شکار ہوں اقوام متحدہ فوری طور پر حرکت میں آتا ہے اور پھر مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے، سنتے آئے ہیں کہ اس ادارے میں شامل بڑے ممالک آزادی اظہار رائے، مذہبی آزادی اور انسانی جانوں کی بڑی قدر کرتے ہیں، سنتے آئے ہیں کہ ان بڑے ممالک میں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں وہاں تو جانوروں کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے، سنتے آئے ہیں کہ اقوام متحدہ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور دنیا میں کہیں بھی امن خطرے میں ہو یا عالمی امن کو خطرات لاحق ہوں سب ملکر کسی بھی بڑے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہوتے ہیں۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو سنائی جاتی ہیں لیکن جب میں غزہ کو دیکھتا ہوں فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت کو دیکھتا ہوں تو مجھے شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ نا تو اقوام متحدہ کے کام اپنے اعلانات اور دعووں کے مطابق ہیں نا ہی عالمی طاقتوں کے فیصلوں کا معیار انسانیت کی بنیاد پر ہے۔ یہاں واضح طور پر مذہبی تقسیم ہے۔ دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے، مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی روکنے والا نہیں، نہ تو کوئی مظلوم مسلمانوں کی مدد کرتا ہے نہ ہی کوئی ظلم کرنے والوں کو روکتا ہے۔ الٹا عالمی طاقتیں مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کا ضمیر اس وقت مر جاتا ہے جب وہ مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے یا فلسطین میں ہسپتالوں پر بمباری ہوتی ہے یا فلسطین میں معصوم بچوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں یا خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے اس وقت کوئی نہیں بولتا اس وقت جتنا ظلم فلسطین میں ہو رہا ہے۔ اسرائیلی افواج جیسے نہتے اور معصوم فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے اگر اقوام متحدہ اصول، انصاف، مساوات اور مذہبی برابری کی بنیاد پر کام کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ سب اہم ممالک اسرائیل کی مخالفت کریں لیکن یہاں مسئلہ مذہبی اتحاد کا ہے۔ مغربی دنیا ایسے معاملات میں فیصلے مذہبی شناخت دیکھ کو دیکھنے کے بعد کرتی ہے۔ وگرنہ دنیا کے کسی ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کے بجائے کسی اور پر تشدد ہو رہا ہو، بمباری ہو رہی ہو، تشدد ہو رہا ہو، ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو کیا یہ سب خاموش رہیں گے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلم امہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ امت مسلمہ کے لیے یہ حالات سوالیہ نشان ہیں کہ آپ کے مظلوم و بے بس بزرگوں، بھائیوں، بہنوں، بچوں اور مریضوں پر ظلم ہو رہا ہے اور آپ کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ یاد رکھیں یہ خون رائیگاں تو نہیں جائے گا۔ کوئی تو اس کا حساب لے گا ایسا نہیں کہ یہاں حساب نہ ہو۔ یہاں بھی ہو گا اور جتنے بھی طاقتور ممالک اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں بھی جواب دینا ہو گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب یہ چیخیں چلائیں گے کہ ظلم ہو رہا ہے۔ کوئی بتائے اس وقت کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، کوئی بتائے فلسطین میں کیا ہو رہا ہے، کوئی بتائے افغانستان کے مسلمانوں کو کس چیز کی سزا دی گئی، کوئی بتائے پاکستان کے مسلمانوں کو کیوں بم دھماکوں اور گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسا کسی اس ملک میں کیوں نہیں ہوا جہاں مسلم اکثریت نہیں ہے۔ بہرحال یہ بات پہلے بھی ثابت تھی اور آج ایک مرتبہ پھر تصدیق ہو چکی ہے کہ عالمی طاقتیں، عالمی ادارے دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں کا تحفظ نہیں کر سکتے نہ ہی وہ مسلمانوں کی حمایت کریں گے، نہ ہی وہ مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس بمباری کی ویڈیوز، درد سے چیختے بچے، دکھوں کا سامنا کرنے والی خواتین اور بزرگوں کے چہروں کو یاد رکھیں یہ آنے والے وقتوں میں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو ثبوت کے طور پر پیش کیے جائیں گے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے غزہ کے ہسپتال پر حملے کی ذمہ داری فلسطینی گروپ پر ڈال دی۔ امریکی صدر نے اسرائیل کو ایک مرتبہ پھر مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیل کو دفاع کے لیے واشنگٹن سب کچھ فراہم کرے گا۔ ظالم اور متعصب جو بائیڈن کو اپنے اکتیس شہریوں کی فکر ہے لیکن سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کیا فلسطین کے مسلمانوں کا خون اتنا سستا ہے۔ جہاں تینتیس امریکیوں کی زندگی کا خاتمہ ہوا ہے وہاں تین ہزار سے زائد مسلمان بھی شہید ہو چکے ہیں۔
غزہ میں ہسپتال پر ہونے والی وحشیانہ بمباری میں پانچ سو سے زائد فلسطینی شہید جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ متعدد زخمی افراد کی حالت تشویشناک ہے اور اموات میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔ برطانیہ میں نیتن یاہو کا خاکہ بنانے پر کارٹونسٹ کو برطرف کیا گیا ہے۔ یہ آزادی اظہار رائے کے علمبرداروں کا حال ہے۔ پچاس ہزار حاملہ خواتین کو طبی سہولیات کی فراہمی میں مسائل کا سامنا ہے۔ یہ ان لوگوں کی حالت ہے جو افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے شور مچاتے ہیں۔ بہرحال یہ جنگ ایک مرتبہ پھر ثابت کر رہی ہے کہ نشانہ صرف مسلمان ہیں۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دلوں میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں
جب سانسیں اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم سم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویراں آنگن میں
جتنی صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں رہنے دیجے
جس عمر میں قصے بنتے تھے
اس عمر کا غم سہنے دیجے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں