جمہوریت کی ناکامی، سیاستدانوں کی ناکامی

Oct 19, 2023

رحمت خان وردگ

جمہوریت کو انگریزی میں ڈیموکریسی کہتے ہیں لیکن پاکستان میں جمہوریت کے مطلب ڈاکو کریسی ہے۔ سب سے پہلے تو سیاسی جماعتوں کو ذاتی جاگیر بناکر چلایا جاتا ہے۔ پارٹی میں الیکشن کے ذریعے مخلص وفادار کارکنوں کو عہدوں پر لانے اور منتخب کراکے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے ان کی مخلصانہ کاوشوں سے فائدہ اٹھانے کے بجائے یہاں سیاسی جماعتوں کو خاندانی وراثت بناکر چلایا جاتا ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو وہاں مخصوص خاندانوں کا مکمل قبضہ ہے۔ بنیادی طور پر آغاز ہی سے جمہوریت کش رویہ اختیار کرنے کے بعد آگے ہر جگہ اسی طرز عمل کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ پارٹی عہدے اور پھر الیکشن میں ٹکٹ سب بھاری عطیات کے عوض فروخت کئے جاتے ہیں۔ سینیٹر کی نشست کی تو بولیاں لگتی ہیں۔ اب یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں رہ جاتی کہ جو شخص 4کروڑ روپے سے سینیٹ کی نشست خرید کر ایوان میں آئے گا وہ سیاست میں کی گئی سرمایہ کاری منافع سمیت وصول کرنا اپنا حق سمجھے گا۔ اسی لئے کرپشن کو فروغ حاصل ہوا ہے بلکہ کرپشن کرنا حق سمجھا جاتا رہا ہے۔ دوسری طرف عام باصلاحیت نوجوانوں کو سیاست میں کوئی مواقع نہیں دیئے جاتے جس سے ملک میں ایک طرح کا بادشاہی نظام رائج ہے اور مخصوص خاندان ہی باری باری پارٹیاں تبدیل کرکے اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور جمہوری نظام صرف جاگیرداروں اور صنعتکاروں کے چنگل میں آچکا ہے۔
سیاست میں بھاری سرمایہ کاری کرکے عہدوں پر آنے والے اپنی سرمایہ کاری منافع سمیت وصول کرنے کے لئے سب سے پہلے تو ترقیاتی بجٹ سے اپنا تگڑا حصہ کمیشن کی صورت میں وصول کرتے ہیں چنانچہ ترقیاتی منصوبوں کا معیار انتہائی ناقص ہوچکا ہے۔ اسی طرح دیگر سرکاری ٹھیکوں اور کاموں کے عوض بھاری کک بیکس لئے جاتے ہیں۔ ہر رکن پارلیمنٹ کی اولین ترجیح ہوتی ہے کہ اس کے علاقے کا پٹوار خانہ اور تھانہ اس کے من مانے لوگوں سے بھرا ہو۔ اس مقصد کے لئے اقتدار میں آنے والی جماعت کے عہدیدار اپنے اپنے علاقوں میں اپنے من پسند افراد کو مختلف قسم کے تحائف لیکر تعینات کراتے ہیں اور پھر ان سے اپنے تمام جائز و ناجائز کام کرواتے ہیں۔ تھانے اور پٹوار خانے میں مخصوص سیاسی افراد کی اجازت کے بغیر عام آدمی کا کوئی جائز کام نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے عام آدمی ان سیاسی افراد کے مرہون منت رہتے ہیں اور ووٹ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جس علاقے کے لوگ حزب اختلاف کی جماعتوں کے حامی ہوتے ہیں‘ ان کے علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کرائے جاتے اور سیاسی انتقام کے طور پر ان کے علاقے کو کھنڈر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس سے ملک کے بڑے بڑے شہروں کی حالت زار قابل رحم ہوچکی ہے۔
ملک بھر میں اکثر جرائم پیشہ افراد مخصوص سیاسی افراد کی چھتری تلے اپنے غیر قانونی کام کرتے ہیں اور بااثر سیاستدانوں کی سرپرستی کے باعث عام آدمی کی جان‘ مال‘ عزت آبرو کچھ بھی محفوظ نہیں رہ پاتی۔ اور اگر غریب آدمی میڈیا کے ذریعے اپنے اوپر ہونے والے مظالم بتاکر انصاف کی امید کرتا ہے تو یہاں کا ناکارہ نظام اسے انصاف نہیں دے پاتا۔ دنیا بھر میں عام مسائل کے حل کی ذمہ داری مقامی بلدیاتی نمائندوں کو سونپی گئی ہے لیکن یہاں جب بھی نام نہاد جمہوریت رائج رہی ہے تو حزب اقتدار کی کوشش رہتی ہے کہ اختیارات و وسائل وفاق و صوبوں تک محدود رہیں اور بلدیاتی انتخابات اول تو ہونے ہی نہیں چاہئیں اور اگر عدالتی احکامات پر کرانا مجبوری بن جائے تو بالکل ہی بے اختیار بلدیاتی نمائندے منتخب ہوں جو ہر کام کے لئے صوبے کی مدد کے منتظر رہیں۔ اسی لئے جنرل پرویز مشرف کے بعد ملک میں بلدیاتی نظام سے بھی عوام کے مسائل حل نہیں ہوپائے۔
جنرل مشرف کے دور میں پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ ریلوے اور پی ایس او ماہانہ اربوں روپے منافع کمارہے تھے لیکن ڈاکو کریسی رائج ہونے کے بعد تمام بڑے قومی ادارے دیوالیہ پن کا شکار ہوکر قومی خزانے پر بھاری بوجھ بن چکے ہیں۔ اس کی وجہ بھی سیاستدان ہی ہیں جو اپنے ذاتی سیاسی و معاشی فائدے کے لئے سیاسی بنیادوں پر نااہل‘ کرپٹ افراد کواداروں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین بھرتی کراتے ہیں۔ اس سے ادارے کی کارکردگی میں بہتری کے بجائے خرابی پیدا ہوتی ہے تو دوسری جانب معاشی بوجھ سے ادارہ دیوالیہ پن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسی لیئے پاکستان کے بڑے قومی ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔ 
پاکستان میں اب تک احتساب کے نام پر صرف اور صرف انتقام ہی لیا گیا ہے اور اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات بناکر عتاب کا شکار بنایا جاتا رہا ہے۔ کسی کی بھی اصل میں یہ نیت نظر نہیں آئی کہ کرپشن سے لوٹی گئی قومی دولت وصول کی جائے۔ اگر کسی ایک کی بھی نیت ٹھیک ہوتی تو وہ پارلیمنٹ میں کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور کراتا۔ یہاں تو اہم قومی منصوبے بھی صرف ذاتی کمیشن کی غرض سے لگائے جاتے ہیں اور جہاں کمیشن ملنے کا امکان کم ہو لیکن اس منصوبے سے ملک کی تقدیر سنور سکتی ہو‘ اسے ک±ھوہ کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سڑکوں اور موٹرویز کی تعمیر کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر سے ملک آج تاریکی کا شکار نہ ہوتا اور نہ ہی مہنگی بجلی سے عوام کی زندگی اجیرن ہوتی لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ B.O.T.کی بنیاد پر عالمی معاہدوں سے ڈیموں کی تعمیر میں شاید کمیشن ملنے کا امکان نہیں تھا اسی لئے اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی اور اب ہر سال مون سون کے موسم میں قدرتی آبی وسائل ہمارے لئے عذاب ثابت ہوتے ہیں اور سیلاب سے ملک بھر میں عوام کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔چھوٹے بڑے ڈیم ہوتے اور فلڈ کینالز تعمیر کی گئی ہوتیں تو مون سون میں آنیوالی بارش ہمارے ملک کے لئے رحمت ہوتی اور سال بھر کی زرعی ضرورت کے وافر پانی کی دستیابی کے ساتھ ساتھ سستی ترین ہائیڈل پاور جنریشن سے عام آدمی کو بجلی بلوں میں ریلیف ملتا۔
سیاستدانوں کی اس بدترین کارکردگی اور طرز عمل کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام سیاستدان ملک کی خاطر اپنے رویئے درست کرکے گرینڈ قومی ڈائیلاگ کرکے درج بالا تمام خامیوں کا قانون سازی کے ذریعے خاتمہ کرتے اور متفقہ قانون سازی کرکے انتخابی‘ عدالتی نظام ‘ بلدیاتی نظام میں تبدیلی لاتے اور کرپشن پر سزائے موت کا قانون منظور کیا جاتا جس کے تحت قانون کی منظوری کے بعد ہونیوالی کرپشن پر سزائے موت پر سب اتفاق رائے کرتے اور ملک کو ایک اچھی طرف لے جاتے۔ کاش ایسا ہوجائے لیکن تاحال تو سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ملک مزید سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتااور ایسے ہی سیاسی ماحول میں الیکشن سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ ملک ایک نئے بحران کا شکار ہوجائے گا۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں