اسرائیلی جارحیت اور مغربی ذرائع ابلاغ 

رواں ماہ کی 7 تاریخ سے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کی طرف سے جارحیت کا جو سلسلہ جاری ہے اس میں اب تک ہزاروں معصوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں کے بے گھر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس صورتحال پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ اتنا غیر مو¿ثر ہے کہ اسے ردعمل کہنا بھی مناسب نہیں لگتا۔ بالعموم تمام مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا اس سلسلے میں جس طرح اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے اس سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو صرف اسرائیل ہی کی طرف سے جارحیت کا سامنا نہیں ہے بلکہ پورا مغرب اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہاں، یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں ہی ہزاروں، اور کئی جگہوں پر لاکھوں، لوگوں کے فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے جلسے جلوسوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کی پالیسیوں سے نہ صرف اختلاف رکھتے ہیں بلکہ وہ کھلے عام اپنی اختلافی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا اس سلسلے میں ان ممالک کی حکومتوں کے ساتھ بھرپور تعاون کررہا ہے۔
برطانیہ اور امریکا کے نشریاتی اداروں کی خبریں اور پروگرام وغیرہ دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ادارے کس طرح فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلیوں کو مظلوم بنا کر پیش کررہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بہت سے لوگ ایک غیر جانبدار ادارہ سمجھتے ہیں اور کئی بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے اس کی پالیسی واقعی غیر جانبدار ہے بھی لیکن اسرائیل کے معاملے میں ایسے ہرگز نہیں ہے۔ برطانیہ میں فلسطین کے سفیر حسام زوملوت کو بی بی سی نے 7اکتوبر کے بعد سے اب تک جتنی بار بھی اپنے ہاں بات کرنے کے لیے دعوت دی ہے ان سے ایسے سوالات کیے گئے جن کے جواب میں انھیں پروگرام کے میزبان یا خبریں پڑھنے والوں سے یہ پوچھنا پڑا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں دہائیوں سے جارحیت کا جو سلسلہ جاری ہے اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے انھوں نے کتنی بار اسرائیل کے کسی نمائندے کو اپنے ہاں دعوت دی، اور کیا ان سے اسی قسم کی باتیں پوچھی گئیں جو فلسطین کے سفیر سے پوچھی جارہی ہیں؟ ایسی باتوں کے جواب میں بی بی سی کے اینکرز بحث ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔
اسی قسم کے ایک موقع پر حسام زوملوت نے بی بی سی کے اینکر کے بار بار کیے گئے سوال سے تنگ آ کر اس سے کہا:
"How many times has Israel committed war crimes, right live on your own cameras? Do you start by asking them to condemn themselves? Have you? You don't, you don't. No, no, I'll asnwer that question. You know why I refuse to answer this question? Because I refuse the premise of it. Because at the very heart of it is misrepresentation of the whole thing. Because it's the Palestinians that are always expected to condemn themselves... You bring us here whenever there are the Israelis who are killed. Did you bring me here when many Palestinians in the West Bank, more than 200 over the last few months? Do you invite me when there are such Israeli provocations in Jerusalem and elsewhere?"
حسام زوملوت تو فلسطینیوں کے نمائندے ہیں، اب آپ اینڈریو مترووچزا (Andrew Mitrovica) کی بات سن لیجیے جو کینیڈا میں تحقیقاتی صحافت کے سلسلے میں ایک بڑا نام ہے۔ 10 اکتوبر کو انھوں نے قطری نشریاتی ادارے ’الجزیزہ‘ کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں مغربی ذرائع ابلاغ کو اسرائیل کا ساتھ دینے کے حوالے سے آڑے ہاتھوں لیا۔ Get this straight, Western media: Palestinians aren’t sub-human کے عنوان سے شائع ہونے والے اس مضمون میں اینڈریو مترووچزا نے لکھا کہ
"The deep and lasting human consequences of Israel’s terrifying, perpetual war on Palestinians – prosecuted with indiscriminate cruelty by an occupying army and its de facto proxies, fanatical settler militias – have been plain for anyone willing or inclined to see, for generations.
Countless lives lost and maimed in body and spirit. Land and homes stolen. Livelihoods and ancient traditions destroyed. The exhausting cycle of having to rebuild, then watching all the promise and possibility turn, in an instant, to dust. The wholesale imprisonment of a people penned like cattle behind walls and barbed wire fences, where water and electricity, food and fuel, are switched on and off on a colonial power’s whim.
But, of course, much of the Western media won’t acknowledge these facts and outrages. That’s because many of the reporters and columnists now gripped by the latest eruption of murderous madness in Palestine and Israel have always interpreted events through a prism chiefly dictated by Israel – whether they are prepared to admit it or not.
In this myopic calculus, Israel is always the victim, never the perpetrator. Israel’s understanding of history matters; Palestinians’ reading not only of the past but of the present and the future too, does not count. And, perhaps most indecent of all, Israeli lives and deaths matter; Palestinian lives and deaths don’t."
اینڈریو مترووچزا اور حسام زوملوت جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ مغربی میڈیا کے بارے میں بھی سچ ہے اور یہ بات مغربی حکومتوں پر بھی صادق آتی ہے جو انسانی حقوق کی بات صرف اور صرف تب کرتی ہیں جب اسرائیل کے صہیونیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر انھیں واقعی انسانی حقوق اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی المیے کی پروا ہوتی تو پھر یہ لوگ ہر اس مرحلے پر جنگ کی مذمت کرتے جب انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا۔ اور اگر ایسا واقعی ہوتا تو پھر یہ مسئلہ گزشتہ پون صدی سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود نہ ہوتا بلکہ کب کا حل ہوچکا ہوتا! لیکن کسی بھی دوسرے سے گلہ کیا کیا جائے جب مسلم ممالک کے حکمران خود ہی خاموش تماشائی بن کر مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تماشا دیکھ رہے ہیں؟

ای پیپر دی نیشن